سورة یونس - آیت 3

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے لوگو) تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا (یعنی چھ معین زمانوں میں پیدا کیا) پھر اپنے تخت حکومت پر متکمن ہوگیا، وہی تمام کاموں کا بندوبست کرر ہا ہے ( یعنی کائنات ہستی پیدا بھی اسی نے کی اور فرماں روائی بھی صرف اسی کی ہوئی) اس کے حضور کوئی سفارشی نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ خود وہ اجازت دے دے، اور اجازت کے بعد کوئی اس کی جرات کرے، یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار پس اسی کی بندگی کرو، کیا تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے؟

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

کائنات کا دل : (ف2) ایام سے غرض مدت ہائے دراز ہیں کیونکہ یوم کے لفظ میں باعتبار لغت و ادب بہ نسبت نہار لفظ کے، جس کے معنی دن کے ہیں، اور زیادہ وسعت ہے ، ﴿اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ﴾سے غرض عطوفت الہی کا کائنات کی جانب متوجہ ہونا ہے ، عرش تدابیر الہی کا مقام ومرکز ہے ، جس طرح دل انسان کے لئے تمام ارادوں کا مدار ومحور ہے، اس طرح عرش کا ئنات مادی کا دل ہے ، یا غیر اعلی سمجھ لیجئے تجلیات تدبیری عرش کی وساطت سے نافذ ہوتی ہیں ، یعنی اللہ کے تمام احکام یہیں سے صادر ہوتے ہیں ، تفصیل گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے ۔ حل لغات : الْأَمْرَ: وہ حقیقت عامہ جو ساری کائنات کو شامل ہے ۔