لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
(مسلمانو) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے، تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہشمند ہے، وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والا رحمت والا ہے۔
مقام محمدی : (ف ١) رسول کی تنکیر تعظیم شان کے لئے ہے یعنی تمہارے پاس اللہ نے ذی وقار پیغمبر بھیجا ہے ، جو تم میں سے ہے ، لوازم بشری کا حامل ہے ، انسان ہے ، انسانوں کی سی ضرورتیں ، اور حاجتیں رکھتا ہے ، بالکل تمہاری طرح اللہ کا ایک بندہ ہے مگر رتبہ ومقام کا یہ عالم ہے کہ تم میں سے بڑے سے بڑا انسان اس کی خاک پاکی برابری نہیں کرسکتا ، وہ انسان ہے ، مگر انسانیت کو اس بےنظیر ہستی پرفخر ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) اسی آیت کو یوں پڑھا کرتے تھے ” من انفسکم “۔ سین کے زبر کے ساتھ یعنی تم سے بہترین ، اعلی وارفع انسان کو بھیجا ہے ، عین تقاضائے رسالت ہے کہ جو پیغمبر ہو کر آئے ، وہ تمام انسانوں سے دل ودماغ ، جسم و روح ، تو قابلیت واستعداد کے لحاظ سے بلند ترین مقام پر فائز ہو ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تین خصوصیات بھی گنائی ہیں ، ١۔ امت کے غمگسار ہیں ۔ ٢۔ قوم کی ہدایت کے لئے بیحد مشتاق ۔ ٣۔ مسلمانوں کے لئے رؤف ورحیم ۔ امت کے غمگساری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” لعلک باخع نفسک “۔ کہ تم ملت کے لئے ہلکان کیوں ہوئے جاتے ہو ، ہدایت کے لئے حرص وشوق کا یہ عالم ہے کہ وقت کا تالمحہ تبلیغ میں صرف ہو رہا ہے ۔ آپ کی رحمتیں اور نوازشیں جن کی وجہ سے آپ کو روف ورحیم کے پر شکوہ لقب سے نوازا گیا ہے ، اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے ضبط کے لئے دفتروں کی ضرورت ہے ، غرض یہ ہے کہ مسلمان مقام رسالت اور مرتبہ رسول کو پہنچائیں اور سرگرم اطاعت ہوں ، اور فخر کریں کہ ہمیں اللہ نے اتنا بہتر ہادی وراہنما عنایت فرمایا ہے جسے ہم سے زیادہ ہماری فکر ہے ۔ حل لغات : عنتم : عنت سے ہے جس کے معنے تکلیف اور دکھ کے ہیں ۔