يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
مسلمانو ! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس (پھیلے ہوئے) ہیں اور چاہیے کہ وہ (جنگ میں) تمہاری سختی محسوس کریں (کہ بغیر اس کے جنگ جنگ نیہں) اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو (ہر حال میں) متقی ہوتے ہیں۔
(ف2) اس آیت میں اصول جہاد کی تشریح کی گئی ہے کہ سب سے پہلے جو قریب کے دشمن ہیں ، ان سے جنگ کی جائے پھر ان لوگوں سے جو پہلوں سے نسبۃ قریب ہوں ، یعنی اقرب فالاقرب کا اصول مد نظر رکھا جائے ، اس طریق سے طاقت وقوت میں باقاعدہ ترقی ہوتی رہتی ہے حضور (ﷺ) نے اس طریق جہاد پر عمل فرمایا ، سب سے پہلے مکے والوں سے معرکے رہے ، اس کے بعد تمام اہل عرب سے ، پھر اہل کتاب سے یعنی بنی قریظہ و بنی نضیر سے ، اس کے بعد خیبروفدک میں جنگ رہی ، صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین نے بھی اسی آئین کو ملحوظ رکھا ، روم ، شام عراق اور تمام بلاد میں اسی ترتیب وتسلسل کو جاری رکھا ، ﴿وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً﴾کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کو دشمن کے مقابلہ میں پرہیبت اور پرجلال رہنا چاہئے کافر مسلمان کے کسی بشر کو دیکھے اور لرزہ براندام ہوجائے ، جب جاکر اسلام مکمل ہوتا ہے ۔ ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ﴾میں اس بات کی جانب صریح اشارہ ہے کہ صحیح اتقاء ہیبت وجلال کا نام ہے ضعف وناتوانی کا نہیں ، صحیح معنوں میں متقی وہ ہے ، جو کفر کے بدن پر کپکپی طاری کر دے اور جسے دیکھ کر کفر سہم جائے ۔