لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
یقینا اللہ اپنی رحمت سے پیغمبر پر متوجہ ہوگیا، نیز مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے بڑی تنگی اور بے سروسامانی کی گھڑی میں اس کے پیچھے قدم اٹھایا اور اس وقت اٹھایا جبکہ حالت ایسی ہوچکی تھی کہ قریب تھا ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیں، پھر وہ اپنی رحمت سے ان سب پر متوجہ ہوگیا۔ بلاشبہ وہ شفقت رکھنے والا رحمت فرمانے والا ہے۔
(ف1) غزوہ تبوک گرمی کے دنوں میں واقع ہوا ، اس لئے عام صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین میں اضطراب تھا کہ گرمی کی اس شدت میں کیونکر سفر طے ہوگا ، کیونکر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ دشمن سے لڑیں ، پانی بہت کم تھا ، اثنائے سفر میں یہ خطرہ لاحق ہوگیا ، کہیں ہلاک ہی نہ ہوجائیں ، دور دراز سفر ، گرمی کے دن اور دشمنوں سے جہاد بہت لوگوں نے ہمت ہار دی اللہ تعالیٰ نے ارادوں میں استقلال پیدا کیا ، دلوں کو صبر کی توفیق مرحمت فرمائی تو صحابہ میں ایک زندگی پیدا ہوگئی مخلصین کی ایک جماعت حضور (ﷺ) کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی اس آیت میں اسی توفیق کا ذکر ہے ۔ ﴿لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ﴾سے غرض یہ نہیں کہ نبی کے پائے استقلال میں بھی معاذ اللہ لغزش پیدا ہوگئی تھی یا ان کی ہمت میں بھی کمزوری اور سستی کا ظہور ہوگیا تھا ، بلکہ محض صحابہ کی حوصلہ افزائی کے لئے عفو کے نام کو ان کے ساتھ ضم کردیا ہے ۔ حل لغات : تاب اللہ علی فلان ، کے معنی التفات ساعی کو مبذول کرنے کے ہیں غرض یہ ہے کہ اللہ نے نبی اور اس کے ساتھیوں کو بہ نگاہ رحمت دیکھا اور ان کے دلوں میں ہمت وقوت پیدا کردی ۔