وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور (پھر دیکھو وہ کیسا عظیم الشان اور انقلاب انگیز وقت تھا) جب ابراہیم خانہ کعبہ کی نیو ڈال رہا تھا اور اس معیل بھی اس کے ساتھ شریک تھا (ان کے ہاتھ پتھر چن رہے تھے اور دل و زبان پر یہ دعا طاری تھی) اے پروردگار ! ہمارا یہ عمل تیرے حضور قبول ہو ! بلاشبہ تو ہی ہے جو دعاؤں کا سننے والا اور (مصالح عالم کا) جاننے والا ہے
خلوص کا پھل : ( ف ١) ابراہیم (علیہ السلام) جس وقت تعمیر کعبہ میں مصروف تھے ان کے منہ سے جو کلمات نکل رہے تھے وہ یہ تھے کہ ربنا تقبل منا یعنی اے خدا ہمارے خلوص و ایثار کو قبول فرما ، گو وہ نہیں جانتے تھے کہ کعبہ کی تعمیر ایک قوم و ملت کی تعمیر ہے ، انسنایت کے مرکز عظمی کی بنیدیں ہیں جو رکھی جارہی ہیں ، لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ حضرت ابراہیم کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات قبولیت کا خلعت فاخرہ پہنیں ، تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ خلوص کی خدا کے نزدیک کیا قیمت ہے ۔ یہ محض فریب نفس ہے کہ مخلص انسان کی قدر نہیں ہوتی ، یہ خدا کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے ، خدا کے نزدیک خلوص اور صرف خلوص ایسی چیز ہے جو اجر کے قابل ہے ۔ دیکھو حضرت ابراہیم ایسے وقت میں جو بالکل غیر تاریخی زمانہ ہے ایسی جگہ پر جو اپنے اندر کوئی جاذبیت نہیں رکھتی ، ایک اللہ کا گھر بناتے ہیں جو آخر میں مرجع انام بن جاتا ہے ۔ کیا یہ صرف ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص کا نتیجہ نہیں ۔ قبولیت کے لیے ظاہری اذرات اور ذرائع کی قطعا ضرورت نہیں اخبار و رسائل یا محراب و منبر گو اس وقت شہرت کا ایک کامیاب ذریعہ ہیں لیکن اللہ کے نزدیک اس نوع کی شہرت جس میں خلوص و حسن نیت نہ ہو ۔ وبال ایمان ہے ، ایک اللہ کا بندہ شہروں سے دور جنگلوں میں اگر خلوص و حسن نیت کے ساتھ کہیں ڈیرہ ڈال کے بیٹھ جائے تو تم آج بھی دیکھ لو گے کہ شہر اور شہر کے تمام اسباب شہرت اس کے قدم چومیں گے اور جنگل میں منگل کا لطف پیدا ہوجائے گا ۔ بات یہ ہے کہ ہم مخلص نہیں اور پھر یہ گلہ بھی ہے کہ کوششیں رائیگاں جاتی ہیں ربنا تقبل منا کا منظر اگر آج بھی دیکھنا ہو تو ابراہیمی ذوق و شوق پیدا کرو ۔ حل لغات : قواعد : بنیادیں ، اساس مناسک : جمع منسک ، احکام و آداب