سورة التوبہ - آیت 94

يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب تم (جہاد سے لوٹ کر) ان کے پاس واپس جاؤ گے تو وہ آئیں گے اور تمہارے سامنے (طرح طرح کی) معذرتیں کریں گے۔ (اے پیغمبر) تمہیں چاہیے (اس وقت) کہہ دو معذرت کی باتیں نہ بناؤ، اب ہم تمہارا اعتبار کرنے والے نہیں، اللہ نے ہمیں پوری طرح تمہارا حال بتلا دیا ہے، اب آئندہ اللہ اور اس کا رسول دیکھے گا تمہارا عمل کیسا رہتا ہے (نفاق پر مصر رہتے ہو یا باز آتے ہو) اور پھر (بالآخر) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ظاہر و پوشیدہ ہر طرح کی باتیں جاننے والا ہے، پس وہ تمہیں بتلائے گا کہ ( دنیا میں) کیا کچھ کرتے رہے ہو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

منافقین کی معذرت : (ف ١) ایک وہ خوش نصیب مسلمان تھے جنہوں نے رسول کی پیروی کی اور توحید کی حفاظت کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ، میدان جہاد میں پہنچے اور کفار سے لڑے ، دوسرے وہ محرومان قسمت تھے ، بزدلی میں جن کی راہنمائی کی ، اور گھروں میں گھسے بیٹھے رہے اور اس وقت بیٹھے رہے جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ لوگ بربکف ہو کر نکلتے اور اپنے خون سے شجر اسلام کو سینچتے ، یہ جرم واقعی غداری ہے ، اللہ سے غداری ہے رسول سے غداری ہے اور اسلامی مصالح سے غداری ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب آپ لوگ جہاد سے لوٹیں گئے تو یہ لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آئیں گے اور جھوٹے عذر پیش کریں گے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ انکے دلوں میں بھی اسلام کی ویسی ہی محبت ہے جیسی دوسرے صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کے دلوں میں اور یہ چاہئے تھے کہ جہاد میں شریک ہوں اور کفار کی صفوں کو کاٹ کر رکھ دیں ، مگر کچھ ایسی ایسی مجبوریاں تھیں جنہوں نے پاؤں پکڑ لئے فرمایا ، یہ جھوٹے ہیں ، آپ ہرگز تسلیم نہ کیجئے گا ، آپ کہہ دیجئے اللہ نے تمہارے سارے بھید کھول کر بیان کردیئے ہیں ، اور تمہاری ساری شرارتوں کو واضح کردیا ہے ، اس لئے ہم لوگوں کو دھوکہ نہ دو ہم تمہارے حالات سے آگاہ اور باخبر ہیں ، آیندہ بھی اللہ تعالیٰ تمہارے نفاق کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے گا ، اور یاد رکھو ، یہ چالبازیاں تمہاری صرف اس دنیا تک کے لئے ہیں ، بالآخر تم کو اللہ کے حضور میں پیش ہونا ہے جو چھپی ڈھکی اور کھلی ، ظاہر ، ہر چیز کو جانتا ہے ، بتاؤ اس وقت کیا عذر پیش کرو گے ، فرمایا ، یہ لوگ اس درجہ ذلیل اور جھوٹے ہیں کہ قسمیں کھائیں گے تاکہآپ ان سے غرض نہ کریں آپ واقعی ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجئے ، یہ لوگ ناپاک ہیں اور ناقابل التفات ہیں یہ ہزار کوششیں کریں ، اللہ ان سے خوش نہیں ہونے کا ، اس لئے کہ انہوں نے اس کو اس کے دین کو اور صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین اور ان کی مصلحوں کو دھو کہ دیا ہے ، فرامیا ان میں سے جو لوگ دیہاتی ہیں وہ کفر ونفاق میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں انہیں تو یہ معلوم ہی نہیں کہ حدود اسلامی کو ہیں یہ طبائع کے سخت اور اکھڑ ہیں ۔