وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور (پھر غور کرو وہ واقعہ) جب ابراہیم کو اس کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا تھا اور وہ ان میں پورا اترا تھا۔ جب ایسا ہو تو خدا نے فرمایا اے ابراہیم ! میں تجھے انسانوں کے لیے امام بنانے والا ہوں (یعنی دنیا کی آنے والی قومیں تیری دعوت قبول کریں گی اور تیرے نقش قدم پر چلیں گی) ابراہیم نے عرض کیا جو لوگ میری نسل میں سے ہوں گے ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ ارشاد ہو جو ظلم و معصیت کی راہ اختیا کریں تو ان کا میرے اس عہد میں کوئی حصہ نہیں
منصب امام و نبوت : (ف ١) ان آیات میں تین باتیں بتائی ہیں ۔ حضرت ابراہیم کا ابتلا ، امامت کی خوشخبری ، حضرت ابراہیم کا مطالبہ اور اس کا جواب ابتلا کے متعلق حضرت ابن عباس کا خیال ہے کہ وہ دس خصائل ہیں جنہیں فطرت انسانی کی اصلاح سے گہرا تعلق ہے اور حضڑت ابراہیم ان میں کامیاب نکلے ۔ یعنی ان پر پوری طرح عمل کیا ، دس باتیں یہ ہیں ۔ (١) کلی کرنا (٢) ناک میں پانی دینا (٣) کنگھار کرنا (٤) مونچھیں تراشوانا (٥) مسواک کا استعمال کرنا (٦) ختنہ کرانا (٧) بغل کو صاف رکھنا (٨) بال زیر ناف صاف کرنا (٩) ناخن کٹوانا (١٠) اور پانی سے طہارت کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم فطرت کے قوانین کو سمجھتے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو امامت کی خوش خبری سنائی ۔ امامت سے مراد وہ امامت ہے جو نبوت کے مترادف ہے اس لیے کہ نبی کہتے ہی ایک کامل اور جامع امام کو ہیں جسے اللہ لوگوں کی اصلاح کے لیے مامور فرمائے ۔ حضرت ابراہیم نے درخواست کی کہ خدایا یہ منصب و نبوت میری اولاد میں رہے یعنی میری اولاد کو بھی توفیق دے کہ وہ تیرے نام کی اشاعت کریں اور تیرے دین کو چار دانگ عالم میں پھیلائیں ۔ اللہ نے جواب دیا ، نبوت و امامت ایسی شیے نہیں جو وراثۃ خاندانوں میں منقتل ہوتی رہے ۔ نبوت کے لیے ایک خاص استعداد ، ایک خاص کردار اور ایک خاص دل و دماغ کی ضرورت ہے ۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ کا ارادہ بھی ہو ، صرف کمالات نبوت کا جمیع ہوجانا کافی نہیں ۔ اس لیے جو لوگ تیری اولاد میں ہمارے معیار انتخاب میں آئیں گے ، وہ تو لئیے جاسکیں گے لیکن ضڑوری نہیں کہ ہر شخص کو عہد نبوت سے سرفراز کیا جائے ، وہ جو ظالم ہیں قطعا محروم رہیں گے ۔ قرآن حکیم میں انبیاء علیہم السلام کے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، وہ یہ ہیں یصطفی ، یجتبی ، ارسل یعنی ایک خاص انتخاب ہے ، اور ایک خاص عنایت ، یعنی نبوت اکتسابی نہیں ، کہ جدو جہد اور حسن عمل سے حاصل ہوسکے ، بلکہ وہی ہے ، یعنی خدا کی بخشش ، گویا درست ہے کہ انبیا کا عمل نبوت سے پہلے حسن و خوبی اور کمال و جامعیت کا بہترین نمونہ ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر نیک اور صالح شخص نبی قرار پائے ۔