إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
صدقہ کا مال (یعنی مال زکوۃ) تو اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ صرف فقیروں کے لیے ہے، اور مسکینوں کے لیے ہے، اور ان کے لیے جو اس کی وصولی کے کام پر مقرر کیے جائیں، اور وہ کہ ان کے دلوں میں (کلمہ حق کی) الفت پیدا کرنی ہے۔ اور وہ کہ ان کی گردنیں (غلامی کی زنجیروں میں) جکڑی ہیں (اور انہیں آزاد کروانا ہے) نیز قرض داروں کے لیے (جو قرض کے بوجھ سے دب گئے ہوں، اور ادا کرنے کی طاقت نہ رکھیں) اور اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لیے اور ان تمام کاموں کے لیے جو مثل جہاد کے اعلائے کلمہ حق کے لیے ہوں) اور مسافروں کے لیے (جو اپنے گھر نہ پہنچ سکتے ہوں اور مفلسی کی حالت میں پڑگئے ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام حکموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
صدقات کے مصرف : (ف1) اس آیت میں صدقات وتبرعات ملیہ کا مصرف بتایا ہے ، غور فرمائیے کہ اس نظم کے ساتھ صدقات کو ادا کیا جائے ، تو مسلمان ہمیشہ کے لئے چندوں سے بےنیازہو جائیں اور ان کی قوم دنیا کے لئے نمونہ ثابت ہو ، صدقات کو حسب ذلیل صورتوں میں خرچ کرنا چاہئے ۔ 1۔ فقراء کے لئے ، یعنی وہ لوگ جو محتاج ہیں انہیں بھیک مانگنے سے روکا جائے ، اور انکی باقاعدہ مالی امداد کی جائے ۔ 2۔ ان مساکین کو دیا جائے ، جو اپنے مصارف کو پورا نہیں کرسکتے یعنی عام مسلمانوں کی اقصادی حالت سنواری جائے ، مسکین کے لغوی معنی ہیں ، اس شخص کے جو کشاکش حیات میں زیادہ کامیابی کے ساتھ حصہ نہ لے سکے اور ایک جگہ پڑا رہے ، یعنی ترقی نہ کرسکے ، 3۔ محصل حاصل کرنے والا ، یعنی صدقات منظم ہوں باقاعدہ چندہ وصول کرنے والے مقرر ہوں ، جنہیں تنخواہ دی جائے ، 4۔ قابل تالیف لوگ یعنی تبلیغ واشاعت کے لئے ایسے لوگوں کی مدد کی جائے ، جو اسلام سے محبت رکھتے ہوں مگر حالات کی وجہ سے اسلام کو قبول نہ کرسکیں ، 5۔ عام دینی ضروریات ۔ 6۔ مسافروں کو جگہ دی جائے ان کی ضیافت دعوت کاسامان کیا جائے ، تاکہ وہ آسانی سے ملی ودینی خدمات کے سلسلہ میں ملک میں گھوم پھر سکیں ۔ یہ زندہ قوموں کے لئے امدادی پروگرام ہے جس پر مسلمانوں کا قطعا عمل نہیں اللہ رحم کرے ۔