سورة التوبہ - آیت 29

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو) ان سے (بھی) جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جزیہ : (ف ٢) یہود بنی قریظہ وبنی نضیر باوجود اس کے کہ مسلمانوں سے پرامن رہنے کا وعدہ کرچکے تھے ، پھر بھی شرارت اور انگیخت سے باز وآئے ، اس آیت میں ان سے مقاتلہ وجہاد کی اجازت دی گئی ہے یعنی ان کی شرارتیں چونکہ حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں اور یہ اپنے عہد پر قائم نہیں رہے ، اس لئے ان سے جہاد کرو ، جب تک کہ جزیہ نہ دیں ، جزیہ ایک رقم ہے جو مصالحین سے لی جاتی ہے ، شرعا تعین نہیں کہ کس قدر ہو ، اس ٹیکس کے مقصد دو ہیں ، ایک تویہ کہ ان کی ذلت وتحقیر کا احساس ہو ، اور پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ نہ ہوں ، دوسرے کہ یہ ان سے حفظ امن کے لئے بطور معاوضہ کے یہ رقم لی جائے اور انہیں فوجی خدمات سے مستثنے کردیا جائے ، حل لغات : نجس : بفتح الجیم ، عقیدے کا ناپاک ، صاغرون : ذلیل ، جھوٹے ۔