سورة التوبہ - آیت 25

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) یہ واقعہ ہے کہ اللہ بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کرچکا ہے (جبکہ تمہیں اپنی قلت و کمزوری سے کامیابی کی امید نہ تھی) اور جنگ حنین کے موقع پر بھی جبکہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے (اور سمجھے تھے کہ محض اپنی کثرت سے میدان مار لوگے) تو دیکھو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی ساری وسعت پر بھی تمہارے لیے تنگ ہوگئی، بالآخر ایسا ہوا کہ تم میدان کو پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

غزوہ حنین : (ف ١) ٨ ھ؁ میں فتح مکہ کے بعد ہوازن وثقیف کے قبیلوں نے جنگ کی طرح ڈال دی ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نے مسلمانوں کو شکست دے دی ، تو مکہ والوں کی تمام جائیداد جو طائف میں ہے ، وہ ہماری ہوجائے گی ، اور ہم مسلمانوں سے بت شکنی کا انتقام بھی لے سکیں گے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقابلہ کے لئے نکلے ، تو ایک جم غفیر ساتھ ہوگیا ، جس کی تعداد تقریبا بارہ ہزار تھی اس لئے مسلمان مغرور تھے ، نہایت بےپروائی سے لڑے ، نتیجہ یہ ہوا کہ شکست کھائی ، اور میدان سے بھاگ نکلے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہاڑ کی طرح کھڑے رہے ، اور آپ نے للکار للکار کر کہا ۔ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب : آپ کے استقلال کو دیکھ کر اور دعوت کو سن کر مسلمان پھر جمع ہوگئے ، اللہ نے ان کی گھبراہٹ دور کی ، اور فرشتے تسلی کے لئے نازل فرمائے ، اور بالآخر مسلمانوں کو عظیم کامیابی ہوئی ، اس آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔