وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
اور جو لوگ (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب) وہ کہتے ہیں (اگر یہ تعلیم خدا کی طرف سے ہے تو کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ خدا ہم سے براہ راست بات چیت کرے یا اپنی کوئی (عجیب و غریب)ٰ نشانی ہی بھیج دے، تو (دیکھو گمراہی کی) جیسی بات یہ کہہ رہے ہیں، ٹھیک ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اس بارے میں پہلوں اور پچھلوں سب کے دل ایک ہی طرح کے ہوئے۔ (بہرحال اگر یہ لوگ نشانیوں ہی کے طلب گار ہیں تو چاہیے نشانیوں کی پہچان بھی پیدا کریں، ہم نے ان لوگوں کے لیے جو ماننے والے ہیں کتنی ہی نشانیاں نمایاں کردی ہیں
(ف ١) ان آیات میں بتلایا گیا ہے کہ قریش مکہ کو معجزہ طلبی اور کرشمہ پسندی کا ایک مرض تھا ، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح وہ یہ کہتے کہ خدا ہم سے براہ راست کیوں گفتگو نہیں کرتا اور وہ کیوں ہمیں نشان نہیں دکھلاتا ، فرمایا : (آیت) ” تشابھت قلوبھم “۔ یعنی ان نسب کی ذہنیت ایک ہی ہے ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کی ایک ایک آیت معجزہ ہے ، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ہر لمحہ وثانیہ اپنے اندر ایک جہان عقل وبصیرت رکھتا ہے ، بات یہ ہے کہ یقین ایمان کا ” ذوق “ ان میں نہیں رہا ۔