إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مکہ کے مہاجروں کو مدینہ میں) جگہ دی اور ان کی مدد کی تو یہی لوگ ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کا کارساز و رفیق ہے اور جن لوگوں کا حال ایسا ہوا کہ ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی تو تمہارے لیے ان کی اعانت و رفاقت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک وہ اپنے وطن سے ہجرت نہ کریں۔ ہاں اگر دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو بلا شبہ تم پر ان کی مددگاری لازم ہے، الا یہ کہ کسی ایسے گروہ کے مقابلہ میں مدد چاہی جائے جس سے تمہارا (صلح و امن کا) عہد وپیمان ہے ( کہ اس صورت میں تم عہد و پیمان کے خلاف قدم نہیں اٹھا سکتے) اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔
حفظ عہد : (ف1) مقصد یہ ہے کہ انصار اور مہاجرین باہم بھائی بھائی ہیں ، ان میں باہمی اعانت کا ہر طریق جاری رہنا چاہئے ، مگر وہ لوگ جو مومن تو ہیں ، اور ہجرت سے محروم رہے ، انہیں مہاجرین وانصار کی حمایت وولایت کا قطعی استحقاق نہیں ، جب تک کہ وہ اللہ کے لئے ہجرت اختیار نہ کریں ، البتہ دینی امانتیں بہرحال قائم رہیں گی ، مخالفین اگر ان مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ستائیں یا تکلیف دیں ، تو اس صورت میں ہر مسلمان اخلاقی ودینی طریق سے اپنے بھائیوں کی اعانت کرے گا ، ہاں اگر مسلمان ان لوگوں سے تعرض کریں ، جن سے مہاجرین وانصار عہد ومیثاق کرچکے ہیں تو اس وقت حفظ عہد کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کی مدد نہ کی جائے کیونکہ پاس میثاق بہرحال ضروری ہے اور جن سے عہد کیا گیا ہے ، نبھایا جائے ۔