وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوتا ہے کہ تم ان کے پاس کوئی نشانی لے کر نہ جاؤ (جیسی نشانیوں کی وہ فرمائشیں کیا کرتے ہیں) تو کہتے ہیں کیوں کوئی نشانی پسند کر کے نہ چن لی (یعنی کیوں اپنے جی سے نہ بنا لی) تم کہہ دو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو کچھ میرے پروردگار کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کرتا ہوں (میرے ارادے اور پسند کو اس میں کیا دخل؟) یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے سرمایہ دلائل ہے اور ان سب کے لیے جو یقین رکھنے والے ہیں ہدایت اور رحمت۔
قرآن معجزہ ہے !: (ف2) اس سے پیشتر کی آیت میں مکہ والوں کا قول نقل ہے کہ آپ مطلوبہ معجزہ کیوں نہیں دکھلاتے ہیں کہ جواب میں آپ نے قرآن کی زبان میں فرمایا میں وحی و الہام کا پابند ہوں اپنی طرف سے کچھ ایزاد نہیں کرسکتا ، اور قرآن میں تمہارے لئے بصائر اور دلائل ہیں ، ﴿هَذَا بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ﴾ یعنی اگر اطمینان مقصود ہے تو قرآن کو پڑھو ، اور اگر یہ نہ ہو سکے ، تو کم از کم جب قرآن پڑھا جائے ، غور سے سنو ، پھر دیکھو قرآن کی صداقت کس طرح تمہیں اپنی جانب کھینچ لیتی ہے اور کیونکہ تمہیں سزاوار کرم بنا دیتی ہے ، ۔ یعنی قرآن بجائے خود معجزہ ہے ، ایک علمی حارقہ ہے ۔ نہایت درجے کا مؤثر کلام ہے ، اس کو پڑھ کر دیکھو انصاف وعدل کے کانوں سے سن لو ، پھر تمہیں خود معلوم ہوجائے گا ۔ کہ یہ کس پایہ کا کلام ہے ۔