أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
پھر کیا تم چاہتے ہو اپنے رسول سے بھی (دین کے بارے میں) ویسے ہی سوالات کرو جیسے اب سے پہلے موسیٰ سے سے کیے جا چکے ہیں؟ (یعنی جس طرح بنی اسرائیل نے راست بازی کی جگہ کٹ حجتیاں کرنے اور بلا ضرورت باریکیاں نکالنے کی چال اختیار کی تھی ویسی ہی تم بھی اختیار کرو؟ سو یاد رکھو) جو کوئی بھی ایمان کی نعمت پا کر پھر اسے کفر سے بدل دے گا تو یقینا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور فلاح و کامیابی کی منزل اس پر گم ہوگئی
(ف1) ابو مسلم کا خیال ہے کہ اس آیت کے مخاطب نئے نئے مسلمان ہیں ، وہ کہتے تھے ، ہمیں بھی عجم کی طرح بت پرستی کی اجازت دی جائے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں ۔ ان میں ایک معزز عبداللہ بن امیہ مخزومی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس وقت تک ہم ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ آپ (ﷺ) مکہ میں چشمے نہ بہا دیں ، یا آپ (ﷺ) کے لئے باغات کی سرسبزی وشادابی ہو ‘ یا آپ (ﷺ) کا قصر ومحل سونے کا ہو ‘ اور یا پھر آپ آسمان پر چڑھ کر قرآن حکیم نہ اتار لائیں ، سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہودی ہیں ، اس لئے کہ اس کے آگے پیچھے انہیں کا ذکر ہے ، اور اس لئے بھی کہ یہ سورۃ مدنی ہے ، یوں جواب میں عموم ہے کہ رسول (ﷺ) سے از خود بلا ضرورت کچھ نہ پوچھو وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، بجز اس کی اجازت کے اسے بولنے کی اجازت نہیں ۔ یہودیوں میں یہ بری عادت تھی کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو عموما سوالات کا تختہ مشق بنائے رکھتے اور عمل کم کرتے تھے ، موشگافیاں اور تفاصیل طلبی کا شوق حد سے زیادہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، رشد وہدایت کے آجانے کے بعد یہ کج بحثیاں کیوں اختیار کرتے ہو ؟ یاد رکھو کہ جس قوم میں یہ ذہنیت پیدا ہوجائے اس سے عملی قوت چھین لی جاتی ہے اور وہ راہ راست سے بھٹک جاتی ہے ۔ حل لغات : سَوَاءَ السَّبِيلِ: راہ راست ۔ يَرُدُّونَ: مادہ رد لوٹانا،