قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
(اے پیغمبر) تم کہہ دو میرا حال تو یہ ہے کہ کود اپنی جان کا نفع نقصان بھی اپنے قبضے میں نہیں رکھتا، وہی ہو کر رہتا ہے جو خدا چاہتا ہے، اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو ضرور ایسا کرتا کہ بہت سی منفعت بٹور لیتا اور (زندگی میں) کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا۔ میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ماننے والوں کے لیے خبردار کردینے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
(ف ٢) نبی کا کام کہانت یا پیش خبری نہیں ، وہ رشد وہدایت کے لئے آتا ہے ، یعنی اس لئے کہ نیک اور ابرار کو جنات ونعیم کو خوشخبری سنائے ، اور وہ جو بدعمل اور بدکردار ہیں انہیں جہنم کی آگ سے ڈرائے ، غیب کا علم صرف ذات بےہمت کو ہے ، عالم غیب کی باتیں بجز علیم وخبیر خدا کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان فیض ترجمان سے بتلایا گیا ہے کہ میں نفع ونقصان کا مالک نہیں ، یہ چیزیں اللہ کے اختیار میں ہیں ۔ میں اگر غیب کے لا تعداد خزانوں سے آگاہ ہوتا ، تو مجھے تکلیفیں کیوں سہنا پڑتیں ، بدروحنین کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ، دندان مبارک کیوں شہید ہوتے ، حرم محترم پر کھلے حملے کیوں کئے جاتے ، اور ایسا کیوں ہوتا ، کہ واسا کرب وبلا میں تڑپ تڑپ کر جام شہادت نوش کرتے ، اور مجھے علم نہ ہو ، یہ باتیں اس لئے ہوئیں ، کہ مستقبل کی خبریں اللہ ہی جانتا ہے ، اور اسی میں مصلحت ہے ، انسان اگر اس محدود عقل کی بنا پر بعض ہونے والے واقعات کو قبل از وقت جان لے تو اس کے لئے دنیا میں جینا مشکل ہوجائے بعض اوقات نہ جاننا بھی اللہ کی نعمتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ حل لغات : مرسہا : قیام ، حفی : واقف وآگاہ ۔