سورة الاعراف - آیت 156

وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (خدایا) اس دنیا کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی لکھ دے اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی کر، ہم تیری طرف لوٹ آئے، خدا نے فرمایا میرے عذاب کا حال یہ ہے کہ جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں اور رحمت کا حال یہ ہے کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، پس میں ان لوگوں کے لیے رحمت لکھ دوں گا جو برائیوں سے بچیں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور ان کے لیے جو میری نشانیوں پر ایمان لائیں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

رحمت خداوندی کی وسعتیں : (ف ١) (آیت) ” انا ھدنا الیک “۔ سے غرض یہ ہے کہ ہر بات میں اللہ کی ہدایت اور کرم فرمائی ضروری ہے ، ورنہ گمراہی کا احتمال ہے ۔ ” ورحمتی وسعت کل شیء “۔ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا غضب اس کے جذبہ رحم سے بسا اوقات مغلوب ہوجاتا ہے ، اور دب جاتا ہے ، مگر شرط یہ ہے کہ ایمان واتقاء کا مظاہرہ کیا جائے وہ لوگ جو صحیح معنوں میں مومن ہیں ، جن کے دلوں میں اتقاء وخشیت کی درشتی ہے ، جو باقاعدہ زکوۃ ادا کرتے ہیں ، اور مال ودولت کی محبت انہیں آپے سے باہر نہیں کردیتی وہ جو پاکباز اور پرہیزگار ہیں ، اعمال صالحہ جن کا وطیرہ اور شغل ہے ایمان جن کے دلوں میں اعتقاد محکم کی شکل میں موجود ہے وہ خدا کی رحمت کے سزاوار ہیں ان پر ہمیشہ اللہ کی رحمتیں چھائی رہتی ہیں ، دنیا ودین میں وہ کبھی نہیں بھٹکتے ، روح اور جسم کی تمام مسترئیں نہیں حاصل ہیں ، اور وہ خوش ہیں کہ اللہ کو انہوں نے پالیا ، اور اللہ سے ان کی دوستی ہے ۔ حل لغات : الامی : ان پڑھ ۔ اصر : بوجھ ۔ اغلال : جمع غل قید ، طوق زنجیر ، استعارہ ہے رسم ورواج کی سختیوں اور دشواریوں سے ۔