وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
اور جس قوم کو کمزور و حقیر خیال کرتے تھے اسی کو ملک کے تمام پورب (١) کا اور اس کے مغربی حصوں کا کہ ہماری بخشی ہوئی برکت سے مالا مال ہے وارث کردیا۔ اور اسی طرح (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کا فرمان پسندیدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا کہ (ہمت و ثبات کے ساتھ) جمے رہے تھے اور فرعون اور اس کا گروہ (اپنی طاقت و شوکت کے لیے) جو کچھ بناتا رہا تھا اور جو کچھ ( عمارتوں کی) بلندیاں اٹھائی تھیں وہ سب درہم برہم کردیں۔
ناتوانوں کی توانائی : (ف2) یعنی بالآخر جو کمزور ونزار تھے ضعیف وناتواں تھے وہ صبر واستقلال کیو جہ سے توانا اور قوت والے ہوگئے جن کے لئے ارض مصر میں رہنا مشکل تھا وہ شام کے مشرق ومغرب میں پھیل گئے ، جو غلام تھے انہیں آزادی اور بادشاہت بخشی گئی وہ جو بادشاہ تھے ، انہیں دریائے قلزم میں غرق کردیا ، کیوں ؟ اس لئے کہ بنی اسرائیل نے صبر واستقلال سے کام لیا اور اس لئے کہ فرعون نے سرکشی اختیار کی ۔