قَالُوا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ
انہوں نے جواب دیا، ہمیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے (پھر ہم جسم کے عذاب و موت سے کیوں ہراساں ہوں؟)
قوت ایمانی : (ف2) فرعون نے یہ دیکھ کر کہ جادوگر ایمان لے آئے ہیں سخت دھمکی دی ، اس نے کہا ، دیکھو معلوم ہوتا ہے ، تمہارا پہلے سے سمجھوتا تھا ، میں تمہیں سولی پر چڑھادوں گا ، تمہارے ہاتھ پاؤں آڑے ترچھے کاٹ دوں گا ، مگر یہاں اس دھمکی کا کیا اثر ہوتا ، جب کہ قوت ایمانی دلوں میں سرایت کرچکی تھی ، جب کہ رگ رگ میں ایمان کی حرارت پہنچ چکی تھی ، انہوں نے نہایت صبر واستقلال سے جواب دیا ہمارا تو مقصد ہی اللہ کی جانب رجوع کرنا ہے ، اس سے ملنا ہے تو پھر خوف کس بات کا ؟ یہ عجیب بات ہے کہ ادھر چند لمحوں پہلے وہ جادوگر تھے موسیٰ (علیہ السلام) کو شکست دینے کے لئے مقابلہ آراء تھے ، یا یہ انقلاب ہے کہ ایمان نے دلوں کو روشن کردیا ہے ، اور ہمتیں بلا کی قوت اختیار کرگئی ہیں ، فرعون کے جبر واستبداد سے وہ بالکل بےخوف ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ایمان چیز ہی ایسی ہے جہاں دلوں میں گھسا ، اجالا ہوگیا ، اور طبیعت یکسر بدلی گئی ۔