وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ
اور اپنا ہاتھ (جیب سے باہر) نکالا تو اچانک ایسا ہوا کہ دیکھنے والوں کے لیے سفید چمکیلا تھا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون : (ف1) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے قصہ کو اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ متعدد مواقع پر ذکر فرمایا ہے کیونکہ اس میں صدہانکات ومعارف پنہاں ہیں ۔ اس میں فرعون اور بنی اسرائیل کی تاریخ ہے آزادی اور حریت کے درس ہیں ، ایمان ویقین کے روح پرور نظارے ہیں معجزات ہیں خوارق ہیں ، بنی اسرائیل کی ذہنیت ہے ، گویا وہ سب کچھ ہے جس کی نسل انسانی کو ضرورت ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ جب مصر میں فرعون نے ظلم واستبداد کا ارتکاب کیا ، اور اسرائیلیوں پر طرح طرح کے ظلم وستم ڈھائے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ، تاکہ انکی رہنمائی کرے ، اور انہیں اس عذاب الیم سے نجات دلائے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا ، میں اللہ کا رسول ہوں میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو ، اس نے نبوت ورسالت پر گواہی طلب کی آپ نے لٹھ کو زمین پر پھینکا ، جو اژدھا بن گیا ، اور ہاتھ باہر نکالا تو براق ، اب وہ حیران ہوا ، کہنے لگا ہو نہ ہو ، یہ جادو ہے ، اور بالآخر تمام جادوگروں کو اکٹھا کیا ، اور کہا یہ بہت بڑا جادوگر ہے ، ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرو ، ورنہ حکومت چھین لے گا ، اور تم کہیں کے نہ رہو گے ۔ ان دو معجزات میں نہایت لطیف اشارہ اس جانب تھا کہ جس طرح لکڑی ایسی بےضرر چیز سانپ بن گئی ہے اسی طرح مومن اللہ کے فضل سے تیرے لئے خطرناک ثابت ہوں گے اور جس طرح میرا ہاتھ چمک اٹھا ہے ، اسی طرح بنی اسرائیل کی خوابیدہ قسمت چمک اٹھے گی ، وہ لوگ جو معجزات کی خواہ مخواہ تاویل کرتے ہیں انہیں ان دو معجزات پر غور کرنا چاہئے ۔ بات یہ ہے کہ اللہ کے بہت سے قانون ایسے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے ، اور جب کبھی اس قسم کا فوق الادراک قصہ سنتے ہیں انکار کرلیتے ہیں ، اور یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کے اختیار میں سب کچھ ہے ۔