سورة الاعراف - آیت 100

أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جو لوگ (پہلی جماعتوں کے بعد) ملک کے وارث ہوتے ہیں کیا وہ یہ بات نہیں پاتے کہ اگر ہم چاہیں تو (پہلوں کی طرح) انہیں بھی گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں میں مبتلا کردیں اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں تاکہ کوئی بات سنیں ہی نہیں؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مقصد یہ ہے ، کہ وہ لوگ جو مجرم ہیں جنہوں نے سرکشی اور تمرد سے دنیائے دین میں طوفان برپا کر رکھا ہے ، اور جو دن رات معصیت اور گناہ میں صرف کرتے ہیں ، جن کے دل بےکیف اور آنکھیں بےنور ہوچکی ہیں جن کے متعلق علم الہی کا فیصلہ یہ ہے ، کہ حرف غلط کی طرح ہٹ جائیں ، وہ مامون کیوں ہیں ، انہیں ہلاکت وتباہی کی فکر کیوں نڈھال نہیں کردیتی ، وہ کیوں نہیں سوچتے کہ عذاب کی گھڑیاں قریب آرہی ہیں ، کیا عذاب الہی کے لئے کوئی دقت ہے جو اس کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کو معلوم ہونا چاہئے ، کہ عذاب کے لئے کوئی خاص ذلت نہیں ، وہ اس وقت آسکتا ہے جب کہ یہ سوجائیں ، اور دنیا ومافیہا سے غافل ہوں ، وہ اس وقت آسکتا ہے ، جب کہ یہ لہو ولعب میں مشغول ہوں ، اور بالکل بےخطر ہوں ، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی تدبیریں محکم ہیں ، جن سے بچ نکلنا محال ہے ۔ حل لغات : مکر اللہ : بمعنے اللہ کی تدبیر محکم ، حبل فصدوہ ، کہتے ہیں ، مضبوط رسی کو ۔