سورة البقرة - آیت 94

قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ لوگ کہتے ہیں آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے) تم ان سے کہو اگر آخرت کا گھر خدا کے نزدیک صرف تمہارے ہی لیے ہے۔ اور تم اپنے اس اعتقاد میں سچے ہو تو (تمہیں دنیا کی جگہ آخرت کا طلب گار ہونا چاہیے۔ پس بے خوف ہو کر) موت کی آرزو کرو (حیات فانی کے پجاری نہ بنو)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

فیصلہ کا ایک طریق : (ف1) یہودیوں کا تفاخر دینی مشہور ہے ، وہ کہتے تھے ، آسمان کی بادشاہت میں ہمارے سوا اور کسی کا حصہ نہیں ، بہشت کے دروازے صرف بنی اسرائیل کے لئے کھولے جائیں گے ، قرآن نے اس غرور کو بار بار توڑا ہے اور ایک آخری طریق فیصلہ یہ پیش کیا ہے کہ تم موت کی خواہش کرو ، یعنی جھوٹے کے لئے ہلاکت کی دعا کرو ، جیسا کہ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اس صورت میں معلوم ہوجائے گا کہ تمہیں اپنے سچا اور پاکباز ہونے پر کتنا یقین ہے ، یہ طریقہ فیصلہ ایک شدید تیقن ، محکم اور مضبوط ایمان کی خبر دیتا ہے جو نبی اسلام کے سینہ میں موجود تھا ، دلائل وبراہین سے جب فیصلہ نہ ہو سکے ، افہام وتفہیم کے تمام دروازے جب بند ہوجائیں تو اس وقت بھی یہی ایک صورت فیصلہ باقی رہ جاتی ہے کہ اپنے آپ کو رب عادل کے عتبہ حق وانصاف پر جھکا دیا جائے ، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا پر ایمان واثق ہو ، اس پر اور اس کی عدالت پر پورا پورا وثوق اور یقین ہو ، ایک کمزور ایمان والا انسان کبھی اس قسم کے فیصلے کے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے پہلے سے اعلان فرما دیا کہ یہودیوں کو اپنی سیہ کاریوں کے سبب ان سے کبھی اس نوع کے ایمان طلب فیصلے پر لبیک کہنے کی جرات نہ ہوسکی ، تاریخ شاہد ہے ، تیرہ صدیاں گزرنے پر بھی یہ قوم اس کے جواب کے لئے تیار نہیں ہوئی ، یہ چیلنج یہودیوں سے مخصوص نہیں ، جنگ خدا پرست اور باطل پرست گروہ کے درمیان ہے پس ہر وہ شخص جو حق والوں کا مقابلہ کرنا چاہے ، آخری طریق فیصلہ کے لئے آمادہ ہو سکتا ہے ، خدا کا نہ ٹلنے والا وعدہ ہے ، ﴿حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ حل لغات : بِئْسَمَا: بہت برا ۔ لَنْ يَتَمَنَّوْهُ: مصدر تمنی ، خواہش ، آرزو اور چاہت ۔ أَحْرَصَ : حریص ترین ۔ يَوَدُّ : مصدر ود ۔ دوستی ، محبت ۔