إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں (یعنی چھ دوروں میں یکے بعد دیگرے واقع ہوئے) پیدا کیا اور پھر (اپنی حکومت و جلال کے) تخت پر متمکن ہوگیا۔ (اس نے رات اور دن کی تبدیلی کا ایسا نظام ٹھہرایا ہے کہ) رات کی اندھیری دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے اور (ایسا معلوم ہوتا ہے گویا) دن کے پیچھے لپکی چلی آرہی ہو اور (دیکھو) سورج، چاند، ستارے سب اس کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو ! اسی کے لیے پیدا کرنا ہے اور اسی کے لیے حکم دینا (اس کے سوا کوئی نہیں جسے کارخانہ ہستی کے چلانے میں دخل ہو) سو کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا۔
تکوین : (ف ١) ایام سے مراد عرصہ ہائے دراز ہے کیونکہ عربی میں یوم کے معنی مدت مدید کے ہوتے ہیں ، قرآن کا عرف بھی یہی ہے (آیت) ” وذکرھم بایام اللہ “۔ ایام عرب تعبیر ہے معرکے کے دنوں سے شاعر کہتا ہے ، ع لنا ایام غرطوال : غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو چھ دن کے عرصے اور مدت میں پیدا کیا ہے ۔ استوی علی العرش ، بطور صفت کے نہیں بلکہ شان کے ہے ، خدا کے لئے بہت شون واصولی ہیں ، جن میں ایک شان استواء بھی ہے ۔ آیت کا مقصد توحید ہے یعنی تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پہنائیوں کو پیدا کیا ، چاند اور ستارے جس کے مسخر ہیں جس نے سب دنیا کو بنایا ہے ، اور جس کی حکومت قائم ہے ، وہ جو تمام دنیاؤں کا یکسان مربی ہے ، نہ وہ جن کو تم پوجتے ہو ، جو بےجان ہیں ، بےروح ہیں ، جن کا کائنات میں کوئی حصہ نہیں ۔