ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ الکتاب ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ متقی انسانوں پر (سعادت کی) راہ کھولنے والی
حروف مقطعات کا فلسفہ : قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں یہ حروف آتے ہیں ، مفسرین نے مختلف معانی ان کے بیان فرمائے ہیں جو کھلا ہوا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ حروف بےمعنی نہیں ۔ قطرب ، مبرو ۔ فراء اور محققین کا ایک عظیم القدر گروہ اس بات پر متفق ہے کہ یہ حروف قرآن کے ان حروف تہجی سے مرکب ہیں جس سے قرآن کے الفاظ بنے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ قرآن اپنے طرز بیان الفاظ کی شوکت اور معنویت کے اعتبار سے جو معجزہ ہے تو اس کی ترتیب میں انہیں روز مرہ کے حروف سے کام لیا گیا ہے تمہیں اگر اس کی ساحری ومعجز نمائی سے انکار ہے تو آؤ ایک سورۃ ہی ایسی لکھ دو جو قرآن کی کسی سورت سے لگاؤ کھا سکے ، علامہ زمخشری نے کشاف میں ایک باریک نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ حروف جو مقطعات کی شکل میں آئے ہیں سب قسم کے حروف کا یک بہترین اور زیادہ تر استعمال ہونے والا مجموعہ ہے ، غور کرکے دیکھو ان حروف کے بعد جہاں جہاں یہ آئے ہیں عموما کتاب آیات ‘ ذکر ‘ تنزیل قرآن وغیرہ کا ذکر ہے جو اس بات پر دال ہے کہ یہ آیات بینات ‘ ذکر جمیل ‘ یہ قرآن معجزہ طراز انہیں حروف کے الٹ پھیر کا نتیجہ ہے حوصلہ ہے تو تم بھی میدان میں آکر دیکھو ، ان حروف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ قرآن نے جس طرح اپنے ادب کو ملحوظ رکھا ہے ، جس اس کا لغت اس کی تشریح ، اس کی تفسیر اور اس کا انداز بیان بغیر کسی تغیر وتبدل کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سینوں میں محفوظ ہے ، اسی طرح اس کے حروف کا تلفظ بھی محفوظ رہنا چاہیے تھا ۔ حروف مقطعات سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے ، گویا قرآن تلفظ وترتیل سے لے کر تشریح وتوضیح تک سب کچھ اپنے اندر رکھتا ہے اور کسی چیز بیرونی چیز کا مرہون منت نہیں ۔ (ف ١) سورۃ سجدہ میں فرمایا (آیت) ” تنزیل ال کتاب لا ریب فیہ من رب العلمین یعنی اس صحیفہ ہدی کے الہامی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں طرز بیان کی دلربائی ، دلائل کا احصاء ضروریات انسانی کا لحاظ اور فطرت حق سے تطابق یہ سب چیزیں پڑھنے اور سننے والے کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یہ کلام خدا کا غیر مشکوک کلام ہے ۔ (ف ٢) : ہدایت کے چار مرتبے ہیں ، الہام فطرت یا معارف ضروریہ کا علم جیسے (آیت) ” ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی “۔ یا وحی نبوت جیسے (آیت) ” وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا “۔ یا توفیق و تیسیر جیسے (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا “۔ اور یا اللہ کے انعامات کی طرف راہنمائی جیسے اہل فردوس یہ کہیں گے ۔ (آیت) ” الحمد للہ الذی ھدانا لھذا “۔ یہاں یہ آخری معنی مراد ہیں ، مطلقا راہنمائی مقصود نہیں ، وہ تو ہر شخص کے لئے ہے چاہے مانے چاہے نہ مانے ۔ حل لغات : تقوی ۔ وقایۃ سے مشتق ہے جس کے معنی بچاؤ کے ہیں ۔ مراد ایسی حالت ہے نفس کی جو گناہوں اور لغزشوں سے بچائے ، غیب : ہر وہ جو ہمارے جوارح کی دسترس سے بالا ہو ۔ اقامت الصلوۃ ۔ پوری طرح خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا ۔