لمص
الف لام میم صاد
(1۔10) سورۂ اعراف۔ میں ہوں اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا صادق القول پس سنو ! یہ کتاب ! قرآن تیری طرف اس لئے اتاری گئی ہے کہ اس کے ذریعہ تو بدکاروں کو عذاب الٰہی سے ڈراوے اور ایمانداروں کے لئے نصیحت ہو۔ پس تو اس سے دل تنگ نہ ہو۔ ) حروف مقطعات کی بحث جلد اول میں دیکھو۔ شان نزول ! (کِتَابٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ) مخالفوں کی کثرت اور موافقوں کی قلت دیکھ کر سست ہوجانا انسانی طبیعت کا تقاضا ہے اس کے موافق آں حضرت کے قلب مبارک پر بھی کبھی صدمہ گذرا ہو تو آپ کی تسلی و تشفی کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم ( جو مانیں سو مانیں جو نہ مانیں نہ مانیں ہاں تو ان کو سنا دے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر قرآن میں اترا ہے اس پر چلو اور اس کے سوا اور مصنوعی دوستوں اور بناوٹی دنیا ساز پیروں اور راہ مار گدی نشینوں کی چال نہ چلو۔ غرض اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرو اور ان کے سوا کسی کے قول کو خواہ کیسا ہی عالی مرتبت کیوں نہ ہو بغیر موافقت شرع کے مذہبی امور میں واجب الاتباع نہ جانو مگر تم بہت ہی کم سوچتے اور نصیحت نہیں پاتے ہو۔ اور ہماری طرف سے یہ بھی سنا دے کہ ہم بگڑے ہوئوں کو دوسری طرح بھی درست کرلیا کرتے ہیں دیکھو ہم نے کئی ایک بستیاں تباہ کردیں جب انہوں نے انبیاء سے مقابلے کئے تو راتوں رات یا دن کو سوتے وقت ان پر ہمارا عذاب آیا۔ پھر جب ہمارا عذاب ان پر آپہنچا تو بجز اس کے کچھ نہ کہہ سکے کہ بیشک ہم ہی ظالم ہیں ہم نے دانستہ سچے لوگوں کا مقابلہ کیا۔ جس کا نتیجہ ہم کو ملا۔ پس جن لوگوں کی طرف رسول بھیجے گئے تھے ان لوگوں سے اور رسولوں سے بھی ہم پوچھیں گے کہ بتلائو تم نے ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح سے برتائو کیا۔ پھر اگر وہ اپنی بدکرداریوں سے منکر ہوئے تو ہم ان کو اپنے علم سے واقعات سنائیں گے جو واقعی ہم کو معلوم ہیں کیونکہ ہم سب کو جانتے ہیں اور ہم کسی واقعہ سے غائب نہیں۔ بلکہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے اس روز ان کو قدر عافیت معلوم ہوگی جس روز سب کچھ ان کے سامنے ہوگا۔ اور اعمال کا اندازہ بھی اس روز برحق ہے کہ جن لوگوں کے نیک اعمال وزن میں زائد ہوں گے وہی پاس ہوں گے اور جن کے نیک اعمال کم ہوں گے ہماری حکم عدولی کی وجہ سے انہوں ہی نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈالا ہوگا جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا ہوگا۔ ہم (اللہ) نے تو تم سے احسان کرنے میں کمی نہیں کی دیکھو تو ہم نے تم کو پیدا کیا اور ہم ہی نے تم کو زمین میں جگہ دی اور تمہاری معاش کے ذرائع اس میں بنائے ایک دوسرے کا محتاج ہے تجارت پیشہ دور دراز ملکوں سے مال لاتے ہیں تو دوسروں کی حاجت پوری ہوتی ہے لوگ ان سے خریدتے ہیں۔ تو ان کی معاش چلتی ہے۔ غرض ایک کو دوسرے کا محتاج بنا رکھا ہے۔ غور کرو تو کیسا انتظام ہے مگر تم کچھ ایسے ناسمجھ ہو کہ بہت ہی کم شکر گذاری کرتے ہو۔