قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ
(اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : ایسی دلیل تو اللہ ہی کی ہے جو (دلوں تک) پہنچنے والی ہو۔ چنانچہ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (زبردستی) ہدایت پر لے آتا۔ (٨٠)
(149۔165) تو ان سے یہ کہہ کہ اللہ تعالیٰ ہی کی بتلائی ہوئی دلیل غالب ہے پس سنو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کردیتا اس سے یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کا نہ چاہنا بھی اس کی مرضی کی دلیل ہے۔ نہیں غور سے سنو ! اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ایک قدرت اور طاقت افعال اختیار یہ کے متعلق بخشی ہوئی ہے۔ بندے جس کام میں اس طاقت کو خرچ کرنا چاہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا اثر مرتب کردیتا ہے اور اگر چاہے تو اس طاقت دادہ کے مخالف بھی ان سے کام لے سکتا ہے۔ پس یہی معنے اس آیت کے ان کو سمجھا اور اصل مسئلہ (شرک اور تحریم اشیائ) کے متعلق ان سے کہہ اپنے گواہ لائو جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ جس کو تم حرام سمجھتے ہو حرام کیا ہے پھر اگر وہ گواہی دیں بھی تو تو ان کے موافق ہرگز گواہی نہ دیجیو کیونکہ یہ شہادت ان کی محض ضد اور عداوت سے ہوگی اس لئے تو ان سے الگ رہیو اور جو لوگ ہمارے حکموں کی تکذیب کرتے ہیں اور جو آخرت کی زندگی پر یقین نہیں کرتے اور اپنے پروردگار کے ساتھ غیروں کو برابر کرتے ہیں۔ کل صفات میں یا بعض میں تو ان کی مرضی پر نہ چلیو تو ان سے کہہ کہ تم تو یونہی آئیں بائیں مارتے ہو یہ حرام وہ حرام آئو میں تم کو بتلائوں جن چیزوں کا تمہارے پروردگار نے تم کو حکم دیا ہے سب سے اول یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو ساجھی نہ بنائو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہ کرو ہم ہی تو تم کو اور ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور ظاہر باطن بے حیائی اور بدکاری ایسی چھوڑو کہ اس کے قریب بھی نہ جائو اور جس جان کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کو ناحق نہ ماریو۔ انہی باتوں کا اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے تاکہ تم ان پر عمل کرنے سے عقلمند بنو اور یتیم لڑکا ہو یا لڑکی اس کے بلوغت کو پہنچنے تک اس کے مال کو ہاتھ بھی نہ لگائو۔ مگر کسی اچھی طرز سے جس میں اس کا بھی نفع ہو یعنی اس کے مال کی تجارت کرو جس سے اس کو بھی نفع ہو‘ اور تم بھی بحالت ضرورت کچھ لے لو۔ اور ماپ اور تول انصاف سے پورا کیا کرو۔ یہ نہیں کہ ایسا پورا کہ جس کو حقیقی مساوات کہیں جو انسانی طاقت سے بالا ہو‘ اس کا تم کو حکم نہیں ہوتا کیونکہ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیا کرتے پس تم عرفی مساوات کردیا کرو۔ جو ہر جنس کے مناسب ہو۔ مثلاً گیہوں کی مساوات الگ ہے اور چاندی سونے کی الگ پس ہر چیز کو مساوات سے دیا کرو۔ اور جب کوئی بات کہنے لگو تو انصاف سے کہو۔ خواہ کوئی فریق تمہارا قریبی بھی کیوں نہ ہو اور تمہاری راست بیانی سے اس کا ضرر بھی ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے نام سے دئیے ہوئے وعدے پورے کرو۔ انہی باتوں کا اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت پائو اور جانو کہ یہی میرا یعنی اللہ تعالیٰ سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کی تابعداری کرو اور دیگر راستوں کی تابعداری نہ کرو ورنہ تم کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے الگ کر کے تتر بتر کردیں گے اسی بات کا اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو اور ایک بات یہ بھی یاد رکھو کہ ہم نے قرآن سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی تاکہ نیکوں پر نعمت پوری کریں۔ اور ہر ایک امر مذہبی کی تفصیل اور ہدایت اور عمل کرنے والوں کے لئے رحمت تاکہ وہ بنی اسرائیل اسے پڑھ کر اپنے پروردگار کی جزا و سزا پر ایمان لائیں اور دل سے یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں کی ذرہ ذرہ نیک و بد جزا و سزا دے گا پھر بعد ازاں کج روئوں نے دین الٰہی کو بگاڑ کر اپنی تحریفات کو اس میں داخل کردیا تو ہم نے کئی ایک نبی بغرض تبلیغ احکام بھیجے اور یہ بابرکت کتاب قرآن شریف ہم نے نازل کی پس تم اس کی اتباع کرو تاکہ تم پر رحم ہو۔ اس بابرکت کتاب کا الگ کر کے اتارنا ایک تو اس لئے تھا کہ لوگ بےدینوں اور کج روئوں کی غلطی سے بچ جائیں دوم اس لئے کہ تم عربی لوگ کہیں بوقت محاسبہ کہنے لگو کہ کتاب آسمانی تو ہم سے پہلے صرف دو گروہوں یہود و نصاریٰ کو ملی تھی اور ہم کو مطلق ان کی تعلیم سے آگاہی نہ تھی کیونکہ ایک تو وہ ہماری زبان میں نہ تھی دوئم اہل کتاب ہند کے براہمنوں کی طرح کسی کو بتلاتے نہ تھے یا کہنے لگو کہ ہماری گمراہی کا سبب یہ تھا کہ ہم کو کتاب نہیں ملی تھی اور اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان یہود و نصاریٰ سے کئی درجہ بڑھ کر ہدایت یاب ہوتے۔ لو ! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی دلیل اور ہدایت اور رحمت یعنی کتاب اللہ تعالیٰ آچکی ہے پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حکموں کو جو قرآن کی معرفت آئے ہیں جھٹلائے گا اور ان سے روگردانی کرے گا وہ بڑا ہی ظالم ہے اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ سن رکھو جو لوگ ہمارے حکموں سے روگردانی کرتے ہیں ہم ان کی روگردانی کی وجہ سے برے عذاب کی سزا ان کو دیں گے کہو تو اب کیا عذر کریں اور ایمان کیوں نہیں لاتے پس ان کو یہی انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آویں یا خود اللہ تعالیٰ چل کر ان کے سمجھانے کو آوے اور خود آکر کہے کہ آئو مان جائو میرے حکموں پر ایمان لائویا شاید اس بات کی انتظار ہے کہ تیرے رب کے عذاب کے نشانوں میں سے کوئی نشان آوے تو مانیں گے مگر یاد رکھیں جس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نشانوں میں سے کوئی نشان آئے گا تو کسی شخص کو جو پہلے اس سے ایمان نہ لایا ہوگا یا ایمان لا کر اپنے ایمان کے وقت کوئی کار خر نہ کیا ہوگا۔ اس کا اس وقت میں ایمان لانا اور اطاعت کا اظہار کرنا ہرگز نفع نہ دے گا تو کہہ دے اگر تم اسی روز کے انتظار میں ہو تو منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں اور یہ بھی سن رکھ کہ جن لوگوں نے دین میں پھوٹ ڈال رکھی ہے اور الگ الگ جماعتیں بنے ہوئے ہیں اصل دین الٰہی کو چھوڑ کر اپنے اپنے راگ الاپتے ہیں اے رسول ! تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں یہ نہیں کہ تجھے ان کی وجہ سے باز پرس ہو ان کا اختیار سب اللہ تعالیٰ کو ہے پس وہی ان کو ان کے کاموں سے خبر دے گا۔ جس شخص نے نیک کام کیا ہوگا اس کو تو دس گنا ثواب ملے گا اور جس نے برائی کی ہوگی اس کو اسی قدر سزا ملے گی اور ان پر زیادتی ہو کر کسی طرح سے ظلم نہ ہوگا۔ تو کہہ تمہارے جھگڑوں سے مجھے مطلب نہیں مجھے تو میرے پروردگار نے سیدھی راہ دکھائی ہے جو مضبوط دین ابراہیم (علیہ السلام) یک رخے کا طریق ہے اور وہ مشرکوں میں نہ تھا۔ تجھ سے اس دین کی ماہیت پوچھیں تو کہہ سنو ! خلاصہ اور مغز اس دین کا یہ ہے کہ تم دل سے اللہ تعالیٰ کے ہو رہو جیسا کہ میں ہو رہا ہوں۔ تو کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو سب جہان والوں کا پالنہار ہے جس کا کوئی شریک نہیں یہی مجھ کو حکم ملا ہے اور یہ نہ سمجھو کہ میں اس کا کسی طرح سے ساجھی ہوں جیسا کہ بعض نادانوں نے اپنے نبیوں کو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کا بیٹا سمجھ رکھا ہے میں بھی کچھ ایسے رتبہ کا مدعی ہوں نہیں ہرگز نہیں میں تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوں خلاصہ میرے مذہب کا یہ ہے سپردم بتو مایۂ خویش را تو دانی حساب کم و بیش رہ تو کہہ جب کہ میرا یہ اصول ہے جو تم سن چکے ہو تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو اپنا معبود اور پروردگار سمجھوں؟ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی سب کا پالنہار ہے اور یہ سن رکھو کہ جو شخص برا کام کرتا ہے وہی اس کی سزا اٹھائے گا۔ اور یہ ہرگز نہ ہوگا کہ کوئی اس کے بوجھ کو اٹھانا تو کیا ہلکا بھی کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی جان کسی جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ بس تم نے اپنے حقیقی پالنہار کی طرف پھر کر جانا ہے پھر وہ تم کو تمہارے اختلافی امور کے تصفیہ کی خبر دے گا۔ جانتے ہو وہ کون ہے وہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا۔ ایک کے بعد دوسرا قائم مقام ہوجاتا ہے اور ایک کو دوسرے پر کسی نہ کسی وجہ سے درجوں میں برتری دے رکھی ہے تاکہ جو تم کو دیا ہے اس میں تم کو آزماوے اور تمہاری کرتوتوں کا سب کے سامنے اظہار کرے اس کی تاجیل اور ڈھیل سے غرہ نہ ہوئو۔ اللہ تعالیٰ سزا دینے لگے۔ تو جلد سزا دے سکتا ہے۔ ہاں یہ بھی ہے کہ اس میں حلم بھی اعلیٰ درجہ کا ہے اور وہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان بھی ہے