وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
اور پھر (وہ وقت) یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا (وہ عہد کیا تھا؟ کیا اسرائیلیت کے گھمنڈ اور یہودی گروہ بندی کی نجات یافتگی کا عہد تھا؟ نہیں، ایمان و عمل کا عہد تھا) اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، عزیزوں قریبوں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، یتیموں مسکینوں کی خبر گیری کرنا، تمام انسانوں سے اچھا برتاؤ کرنا، نماز قائم کرنی، زکوۃ ادا کرنی (ایمان و عمل کی یہی بنیادی سچائیاں ہیں جن کا تم سے عہد لیا گیا تھا) لیکن تم اس عہد پر قائم نہیں رہے) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب الٹی چال چلے، اور حقیقت یہ ہے کہ (ہدایت کی طرف سے) تمہارے رخ ہی پھرے ہوئے ہیں
(83۔86)۔ کیا ان کو یاد نہیں کہ جب ہم نے بنی اسرائیل سے اس امر کا عہد لیا تھا کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ، قریبیوں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرنا اور علاوہ اس کے سب لوگوں سے اچھی طرح بولنا نہ صرف دنیا سازوں کی طرح کہ کہیں کچھ اور کریں کچھ۔ بلکہ خود بھی عمل کرنا اور نماز پڑھنا اور زکوٰۃ مال کی دیا کرنا اس لئے کہ ان دو کے کرنے سے بدنی اور مالی دونوں عبادتیں پوری ہوجاتی ہیں مگر تم اپنی ہٹ سے باز نہ آئے پھر بعد اس عہدوپیمان کے بھی تم سب اس سے پھر گئے۔ مگر بہت تھوڑے سے تم میں سے ثابت قدم رہے پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ تھوڑے ہی روز تم کو عذاب ہو۔ حالانکہ اب بھی تم اللہ کے حکموں سے منہ پھیرے جاتے ہو۔ نہ صرف یہی عہد تم نے توڑا بلکہ کئی اس سے پہلے پیچھے اور بھی توڑے۔ اور سنو ! جب ہم نے تم سے یہ عہد لیا تھا کہ آپس میں خون ریزی نہ کرنا اور اپنے بھائی بندوں کو ان کے وطن سے نہ نکالنا پھر تم نے اقرار بھی کیا اور اب تک تم اس امر کے شاہد ہو۔ مگر ظاہر جو ہوا وہ صرف زبانی جمع خرچ تھا۔ پھر تم نے اے بنی اسرائیل کے لوگو ! سب حکموں کا خلاف کیا چنانچہ پہلے ہی حکم کو تم نے اس طرح سے پلٹا کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو اور دوسرے حکم کا خلاف یہ کیا کہ اپنے میں سے ایک جماعت کو ضعیف جان کر بجائے جگہ دینے کے ان کے گھروں سے بھی نکال دیتے ہو۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اور بھی جہاں تک ہوسکتا ہے کر گزرتے ہو۔ اور ان کو تکلیف پہنچانے میں ان کے دشمنوں کے گناہ اور ظلم میں مدد کرتے ہو۔ یہ نہیں سمجھتے ہو کہ یہ بیچارے آخری بھائی بند تو تمھارے ہیں جیسا کہ اس وقت سمجھتے ہو جب ان پر کوئی بیرونی دشمن غالب آتا ہے اور ذلیل کرتا ہے اس وقت تو ایسے مہربان بنتے ہو کہ اگر وہ تمہارے پاس دشمن کے ہاتھ قیدی ہو کر آویں تو بدلہ بھی دیکر ان کو چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان مظلوموں کا نکالنا بھی تو تم پر حرام ہے۔ اس کا خلاف کیوں ہمیشہ کرتے ہو۔ کیا آدھی کتاب کے حکموں کو مانتے ہو اور کچھ حصہ سے انکار کرتے ہو۔ پس جو کوئی تم میں سے یہ وطیرہ اختیار کرے اس کو دنیا میں خواری اور ذلت کے سوا کچھ بھی نصیب نہ ہوگا اور اسی پر بس نہیں بلکہ قیامت کے روز جو واقعی یوم الجزا ہے سخت عذاب میں پہنچائے جائیں گے۔ اس لیے کہ یہ بات بڑی مجرمانہ حرکت ہے۔ اور اللہ تمھارے کاموں سے کسی طرح بے خبر نہیں۔ ایسے شریروں کی سزا اس قدر کچھ زائد اور حد سے متجاوز نہیں۔ ان کا جرم بھی تو اعلیٰ درجہ کا ہے یہی تو ہیں جنہوں نے دنیا کو آخرت کے عوض میں لیا۔ محض دنیاوی فوائد کے لحاظ سے اپنی آخرت کا خیال نہیں کیا۔ پس ان کے جرم کے مناسب یہی سزا ہے کہ نہ تو ان سے عذاب تخفیف ہوگا اور نہ ان کو کسی سے مدد پہنچے گی۔