سورة الانعام - آیت 42

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کے پاس پیغمبر بھیجے، پھر ہم نے (ان کی نافرمانی کی بنا پر) انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں گرفتار کیا، تاکہ وہ عجز و نیاز کا شیوہ اپنائیں۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(42۔73) مکہ والوں کو تو ابھی تک صرف زبانی زبانی ہی ہدایات سنائی جاتی ہیں تجھ سے پہلے ہم نے کئی قوموں کی طرف رسول بھیجے پھر ان کی شرارت اور عداوت پر ہم نے ان کو سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کسی پر قحط کی بلا بھیجی کسی پر وبا طاعون وغیرہ مسلط کی تاکہ وہ ہمارے سامنے عاجزی کریں اور گڑ گڑائیں۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب پہنچا تو کیوں نہ گڑ گڑائے کہ ان کی تکلیف دفع ہوجاتی اور آسانی ہوتی لیکن بجائے عاجزی کرنے کے الٹے گستاخیاں کرنے لگے کیونکہ ان کے دل سخت ہوچکے تھے اور شیطان نے ان کے کام ان کی نظروں میں مزین اور آراستہ‘ سجے سجائے کر دئیے تھے پھر اس سے بعد جب وہ تمام نصیحت کی باتیں بھول گئے تو ہم نے ہر طرح کی نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دئیے خوب عیش و آرام ان کو دئیے یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر مستی کرنے اور اترانے لگے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا ایسا پکڑا کہ پھر وہ اپنی عافیت اور آسائش سے بالکل مایوس اور بے امید ہوگئے۔ بس ظالموں کی جڑ کٹ گئی اور مظلوموں اور نیک دل لوگوں کے منہ سے اس وقت یہ پکار نکلی کہ سب تعریفوں کا مالک اللہ رب العالمین ہی ہے اور کوئی نہیں وہی تمام دنیا کا مالک پروردگار ہے ہر ایک چیز اسی کے قبضہ میں ہے۔ اے رسول تو ان سے پوچھ کہ بتلائو تم جو اللہ تعالیٰ سے ایسے ہٹے جاتے ہو اور غیر معبودوں سے امید و بیم رکھتے ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری قوت سامعہ اور بصارت چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر کے سخت کر دے جو تم کسی طرح ان سے نیک کاموں میں مدد نہ لے سکو۔ تو اللہ تعالیٰ کے سوا کون معبود ہے جو تم کو یہ اسباب لادے۔ جب کوئی نہیں تو پھر کیوں اس کی ناشکری کرتے ہو۔ غور تو کرو ہم کس طرح کے دلائل بیان کرتے ہیں پھر بھی یہ بہکے ہوئے منہ پھیرے چلے جائیں تو ایک اور بات ان سے پوچھ کہ بتلائو اگر اللہ کا عذاب بے خبری یا باخبری میں تم پر آجاوے تو کیا بے فرمانوں کے سوا کوئی اور بھی ہلاک ہوگا؟ کوئی نہیں تو پھر بے فرمانی کیوں نہیں چھوڑتے ہو۔ یہ گناہوں پر ناراضگی اور نیکیوں پر خوشنودی آج ہی سے تو شروع نہیں ہوئی۔ ہم تو پیغمبروں کو ہمیشہ سے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہی بھیجا کرتے ہیں۔ جو نیکیوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور گناہوں پر ناراضگی بتلاتے تھے۔ پھر جو لوگ ایمان لاتے اور ان کا کہا مان کر صلاحیت اختیار کرتے ان پر نہ تو کچھ خوف ہوتا اور نہ وہ غمگین ہوتے اور جو ہمارے حکموں کی تکذیب کرتے ان کی بدکاری کی شامت میں انہیں کو عذاب پہنچتا۔ مگر ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ایسے عذاب کا بھیجنا یا آئندہ کسی خبر کا بتلا دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتلاوے کوئی نہیں بتلا سکتا پس اے رسول جو لوگ تجھ سے اس قسم کی باتیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضۂ قدرت میں رکھی ہیں پوچھتے ہیں تو تو ان سے کہہ کہ میں تم سے جب یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ بن بتلائے اس کے غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں کہ بے کھائے پئے زندگی بسر کروں پھر اس قسم کے سوال مجھ سے کیوں کرتے ہو۔ میں تم بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے سوا جو میری طرف آتا ہے میں کسی چیز کا تابع نہیں ہوں پس یہی وہ بصارت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے تو کہہ کیا اندھا اور سوانکھا ایک سے ہیں۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کے نور سے روشنی پا کر چلتا ہے ایک اپنی نفسانی خواہشوں کے اندھیرے میں ہے۔ کیا دونوں برابر ہیں۔ تم اس میں فکر نہیں کرتے ہو۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تو اپنے مخالفوں سے سرسری بات کر اور اپنے تابعداروں کو جنہیں اللہ تعالیٰ کے پاس ایسے حال میں جمع ہونے کا خوف دامن گیر ہے جس میں نہ تو کوئی ان کا دوست اور متولی امور ہوگا اور نہ کوئی سفارشی اس قرآن کے ذریعہ بدکاریوں سے اچھی طرح ڈراوے تاکہ وہ سچے متقی بن جائیں مگر کسی موقع پر کبھی بھی دنیا داروں کی طرف مت جھکیو اور جو اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کو صبح و شام اس کی یاد میں لگے رہتے ہیں‘ دنیاداروں کے خوش کرنے کو ان کو اپنے پاس سے مت نکالیو اگر دنیا دار تجھے ان غریبوں کی بابت یہ کہہ کر دل شکنی کریں کہ یہ غربا صرف اس لیے تیرے ساتھ ہوئے ہیں کہ ان کو صدقات خیرات سے کچھ مل جاتا ہے ورنہ دل سے تیرے ساتھ نہیں تو یاد رکھ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی جواب دہی تیرے پر نہیں اور تیری جواب دہی ان پر نہیں پس تو اگر ان کو نکالے گا تو خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو ظالموں میں داخل ہوجائے گا (شان نزول (وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ) دنیا دار متکبروں کی تو ہمیشہ سے یہی عادت ہے کہ غربا کے ساتھ ایک جگہ بیٹھنا گوارا نہیں کرتے ان ہی فرعونی دماغ والوں نے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم حضور کے پاس آویں تو ہماری موجودگی میں ان غریب کنگلوں کو نہ بیٹھنے دیا کریں۔ آپ کو بھی بایں نیت کو یہ فرعونی دماغ اگر صحبت میں حاضر ہوا کریں گے تو آخر ان کی حالت بھی درست ہوجائے گی اس لئے چند روز کے لیے یہ حکم نافذ کرنے کا خیال آیا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی قدر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے امیری اور غریبی کو وہاں کوئی دخل نہیں الاَّ مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ہی معزز ہیں اس لئے غیرت خداوندی کو جوش آیا۔ اور یہ آیت نازل فرمائی (معالم بتفصیل منہ) اس مضمون کی آیات قرآن شریف میں بکثرت ہیں راقم کہتا ہے یہ فرعونی دماغ کے لوگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں خصوصاً اس تہذیب (تخریب) کے زمانہ میں تو ان فرعونوں کی ایسی کثرت ہے کہ الامان۔) ان دنیا دار مغروروں کے کہنے کا کیا ہے اسی طرح پہلے بھی ہم نے غریبوں کو دینداری اور مغروروں کو دولت دنیا دے کر بعض کو بعض سے آزمایا تھا کہ مغروروں کے منہ سے نکلے اور وہ یہ بات کہیں کہ کیا یہی رذیلے ہیں جن پر ہم میں سے الگ اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی ہے اور انہیں کو دیندار وارثان جنت بنایا ہے سبحان اللہ یہ بھی کوئی قابل تسلیم بات ہے کہ دنیا میں تو ہم معزز اور مالدار ہوں اور آخرت میں یہ ذلیل عزت پاویں یہ نادان اپنی عقل کے ڈھکوسلوں سے کام لیتے ہیں۔ کیا یہ اتنی موٹی بات بھی نہیں جانتے کہ دینداری اور آخرت کی وراثت تو تقویٰ اور اخلاص سے حاصل ہوتی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے شکر گذار بندے بخوبی معلوم نہیں۔ اور سن یہ تو ایک معمولی بات تھی کہ نیک دل غریبوں کو اپنے پاس سے مت نکال۔ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ان کی خاطر کر کہ جب ہمارے حکموں پر ایمان رکھنے والے تعمیل ارشاد بجا لانے والے تیرے پاس آویں تو تو خود ابتدا میں ان کو السلام علیکم کہہ اور ان کو خوشخبری سنا کہ تمہارے پروردگار نے رحم اور عفو کرنا از خود اپنے پر لازم کر رکھا ہے۔ مگر اس رحم سے حصہ لینے کا یہ طریق نہیں کہ سرکشی سے حکم عدولی کئے جائو اور رحم کی امید رکھو نہیں بلکہ یہ کہ جو کوئی تم میں سے برا کام غلطی سے کر گذرے پھر اس سے پیچھے توبہ کرے اور صالح بن جائے۔ تو اللہ تعالیٰ کے رحم سے ضرور حصہ لے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے حق میں بخشنہار مہربان ہے۔ پس یہی طریق رحم سے حصہ لینے کا ہے اسی طرح ہم مفصل احکام بتلایا کرتے ہیں۔ تاکہ لوگ سمجھیں اور مجرموں کی راہ واضح ہوجائے تو کہہ دے مجرموں کی راہ بھی کئی قسم ہے گو ان سب کا مال اور اصول ایک ہی ہے ایک تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے سرکشی کریں جس کا بیان ہوچکا ہے۔ دوئم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسے تعلق اوروں سے کریں اور غیر معبودوں سے جو درحقیقت اس قابل نہیں ان سے دعائیں مانگیں ان مکہ والوں میں یہی خرابی اثر کر رہی ہے۔ (شان نزول (قل انی نھیت) مشرکین تو ہر طرح سے مخالفت کرنا اپنا فرض جانتے تھے کبھی تکلیف سے تو کبھی تخفیف سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بآشتی سمجھاتے بہتر ہے کہ آپ ہمارے معبودوں کی عبادت اگر نہیں کرتے تو ایک دفعہ ان پر ہاتھ لگا دیجئے پھر ہم آپ کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں گے۔ چونکہ یہ ایک بے ہودہ طریق تھا اس لئے اس بارے میں کئی دفعہ آیات نازل ہوئیں یہ آیت بھی انہی میں سے ہے۔ (منہ) پس تو اے رسول ان سے پکار کر کہہ دے کہ اللہ کے سوا جن مصنوعی معبودوں کو تم پکارتے ہو اور اڑے وقت جن سے تم دعائیں مانگتے ہو ان کی عبادت اور ان سے دعا کرنے سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع ہے۔ تو یہ بھی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم چھوڑ کر میں تمہاری خواہشوں پر نہ چلوں گا ورنہ میں اوروں کو ہدایت کرتا کرتا خود گمراہ ٹھیروں گا اور ہدایت والوں سے نہ رہوں گا تو یہ بھی کہہ دے کہ بھلا میں تمہاری خواہشوں پر کیونکر چلوں حالانکہ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلیل اور واضح دین پر ہوں اور تم اس سے منکر ہوچکے ہو اور الٹے مجھ سے بگڑ کر عذاب کے خواستگار ہوتے ہو۔ میں تو ایک بندہ ہوں۔ تم جس عذاب کی جلدی چاہتے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ جب اللہ کے سوا کسی کا اختیار ہی نہیں۔ وہی حق حق بیان کرتا ہے اور مناسب وقت اظہار نشان بھی کردیتا ہے اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ تو کہہ بھلا تمہارا جلدی چاہا ہوا عذاب اگر میرے بس میں ہوتا تو میرا تمہارا مدت کا فیصلہ ہوگیا ہوتا۔ کیونکہ میں بھی تمہاری طرح آخر آدمی ہوں پنجری میں گھبرایا بھی کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ہی ظالموں کے حال سے بخوبی واقف ہے اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ان کو وہی جانتا ہے بلکہ جو کچھ جنگلوں اور دریائوں میں ہے وہ سب کو جانتا ہے اور جو پتہ درخت سے گرتا ہے خواہ کسی ملک میں ہو وہ اس کو بھی جانتا ہے کوئی چھوٹا سا دانہ تر ہو یا خشک زمین کے نیچے اندھیروں میں بھی ہو وہ بھی اس کے روشن علم میں ہے اور اس کا کمال قدرت دیکھنا سننا ہو تو سنو ! وہی ذات پاک ہے جو تم کو رات میں مثل موت کے سلا دیتا ہے اور تمہارے دن کے کاموں سے مطلع ہے پھر بعدنیند کے تم کو صبح سویرے اٹھاتا ہے تاکہ تمہاری اجل مقررہ جو دنیا کی زندگی کے لیے مقرر ہے پوری ہو۔ پھر اسی طرح مرور زمانہ سے مدت گذار کر تم نے اسی اللہ تعالیٰ کی طرف جانا ہے۔ پھر وہ تم کو تمہارے کاموں سے خبر دے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ جانتے ہو کون ہے۔ سنو ! وہ اپنے سب بندوں پر خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہوں کسی کی رعایا ہوں یا کسی ملک بلکہ دنیا بھر کے بادشاہ ہیبت ناک بھی کیوں نہ ہوں وہ سب کو قابو میں رکھنے والا ضابط ہے مجال نہیں کہ کوئی اس کے حکم قہری سے ذرا بھر بھی سرتابی کرے وہ تم پر اپنے چوکیدار نگہبان فرشتے بھیجتا ہے پس جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو ہمارے یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کو فوت کرتے ہیں اور وہ کسی طرح تعمیل احکام میں کمی نہیں کرتے پھر بعد مرنے کے اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیرے جاتے ہیں۔ سن رکھو دل میں جگہ دے کر سنو ! کہ اسی کا اصل حکم ہے وہی سب محاسبوں سے جلدی حساب لینے والا ہے اس کے حساب میں دیر ہی کیا ہے دنیا کے نیک و بد افعال قیامت کو اٹھتے ہی ایک دم میں اپنا اثر نمایاں دکھا دیں گے ایسے کہ کسی کو مجال انکار نہ ہوگی چہروں کی رنگت اور حلیہ کی شناخت ہی سے نیک و بد آثار نظر آجائیں گے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تو ان سے دریافت کر کہ تم نے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساجھی بنا رکھے ہیں ذرا بتلائو تو جنگلوں اور دریائوں کے اندھیروں سے جب تمہاری کشتیاں چلتی چلتی بھنور میں پھنس جاتی ہیں اس وقت کون تم کو خلاصی دیتا ہے کس کو گڑ گڑا کر پوشیدہ پوشیدہ پکارا کرتے ہو اور یہ کہا کرتے ہو کہ اگر وہ ہم کو اس بلا سے نجات دے تو ہم ضرور ہی اس کے شکر گذار فرمانبردار بنے رہیں۔ تو کہہ اس میں شک نہیں کہ اللہ ہی تم کو اس مصیبت سے اور اس کے سوا ہر ایک گھبراہٹ سے نجات دیتا ہے مگر پھر بھی اس کا ساجھی بتاتے ہو۔ یہ کیا ایمانداری اور فرمانبرداری کی باتیں ہیں تو کہہ دے کہ سن رکھو اگر تم باز نہ آئے تو وہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے مثل امساک یا طوفان باراں یا نیچے سے مثل وبا امراض بھیج دے یا اور کچھ نہیں تو تم کو مختلف فریق بنا کر ایک کو دوسرے سے مزہ چکھا دے اور تمہاری باھمی ایسی سر پٹھول کرا دے کہ دیکھو۔ پس تم اس سے ہر آن ڈرتے رہو اور بداخلاقیوں سے کنارہ کش ہوجائو۔ تو دیکھ ہم کس طرح کے دلائل ان کو بتلاتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں اور عقل کریں مگر یہ ایسے کہاں کہ غور کر کے نتیجہ پر پہنچیں۔ پہلے تو تیری قوم قریش ہی نے اس قرآن کو جھٹلایا ہے حالانکہ یہ بالکل حق ہے مگر اپنی جہالت سے نہیں مانتے تو کہہ بہت خوب ! نہ مانو پڑے اپنا سر کھائو میرا کیا حرج ہے میں تم پر داروغہ اور محافظ تو نہیں ہوں کہ تمہاری تکذیب اور انکار سے مجھے باز پرس ہو بلکہ تم خود ہی اس انکار کا خمیازہ اٹھائو گے جو تمہارے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اگر جلدی چاہو تو یہ بھی میرے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر ایک بات کا وقت مقرر ہے اور تم خود ہی جان لو گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ان کے پاس اور تو کوئی وجہ اس تکذیب کی پائی نہیں جاتی ہاں ایک مسخرا پن البتہ ضرور ہے سو اس مسخرا پن کا بجز اس کے کیا جواب ہوسکتا ہے کہ جب تو ہمارے حکموں سے مسخری کرنے والوں کو دیکھے تو جب تک وہ کوئی دوسری بات شروع نہ کریں ان سے ہٹ رہ اور ان کے ساتھ نہ بیٹھ۔ کیا تو نے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا قول نہیں سنا آں کس کہ بقرآن و خبر زو نہ رہی ایں ست جوابش کہ جوابش نہ دہی ہاں البتہ اگر کوئی میدان مناظرہ ہو جس میں معقول آدمی سوال و جواب کریں تو مضائقہ نہیں کیونکہ اس سے نتیجہ کی امید ہے لیکن ایسے مسخرا پن کی مجلسوں میں تو ہرگز نہ بیٹھا کر اور اگر شیطان تجھ سے یہ حکم فراموش کرا دے تو جب یاد آوے بعد یاد آنے کے ظالموں کے ساتھ مت بیٹھیو بلکہ طرح دے کر گذر جائیو اس میں گناہ نہیں ہے کیونکہ جو پرہیزگار ہیں ان پر ان مسخروں کی کچھ جواب دہی نہیں ہے ہاں ایک بات ان کے ذمہ بھی ہے کہ ان کو نصیحت کردیں۔ مگر اس نیت سے کہ شاید وہ بھی ایسی بداخلاقی سے بچ جاویں۔ پس تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور جن لوگوں نے اپنا مذہب جس کے پابند کہلاتے ہیں محض ہنسی اور مخول سمجھ رکھا ہے اور دنیا کی زندگی سے فریب کھائے ہوئے ہیں۔ ان کو چھوڑ دے اور ان کی بے ہودہ گوئی کی پرواہ نہ کر اور اس قرآن کے ساتھ لوگوں کو نصیحت کر مبادا کوئی نفس بے خبری میں اپنی بداعمالی کی سزا میں ہلاک ہو اور ایسی آفت میں اس کا اللہ تعالیٰ سے ورے نہ تو کوئی حمایتی ہوگا کہ خودبخود اس کو رہائی دے سکے اور نہ کوئی سفارشی جو سفارش کر کے چھڑا دے اور نہ ہی اس کو اجازت ہوگی کہ کچھ دے کر چھوٹ سکے بلکہ تمام قسم کے معاوضات اور بدلے بھی جو دنیا میں روپیہ پیسہ سے یا مالی جانی ضمانت سے ممکن ہیں اگر دینا چاہیے گا۔ تو بھی اس سے نہ لئے جائیں گے۔ یہ لوگ جو اپنی بد کرتوت کی وجہ سے تباہ ہوں گے انہی کو سخت کھولتا ہوا گرم پانی پینے کو ملے گا اور ان کے کفر کی شامت سے دکھ کی مار ہوگی۔ کیوں ہوگی؟ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں سے اپنی حاجات مانگیں اور غیروں کو جو درحقیقت کچھ بھی نفع یا نقصان نہ دے سکتے تھے محض جہالت سے پکارا پس یہی ان کی بدکاری تھی اور یہی ان کی کرتوت تھی تجھے بھی اگر اپنے دین کی طرف بلائیں تو تو کہہ کیا ہم ایسے احمق ہیں کہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو پکاریں جو نہ ہم کو نفع دے سکیں اور نہ نقصان۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو محض اپنی مہربانی سے راہ راست کی ہدایت کی تو اب ہم اس سے بعد اللہ تعالیٰ کا ساجھی بتانے سے الٹے پائوں گمراہی کی طرف لوٹیں؟ جیسے کسی کو جنگل میں بھوت حیران کردیں اور اس کے دوست اس کو بلائیں کہ سیدھی راہ پر آ مگر وہ شیطانوں کے قابو میں ایسا پھنسا ہو کہ اس کو خبر تک نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ تو کہہ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے اور تم ہم کو گمراہی کی راہ بتلاتے ہو۔ پس خود ہی بتلائو کہ ہم کس راہ چلیں۔ مسلم بات یہ ہے کہ ہدایت اللہ کریم ہی اصل ہدایت ہوتی ہے اس کے برابر کسی کی راہ نمائی نہیں ہوسکتی پس ہم تمہاری نہ سنیں گے اور ہم کو یہ حکم پہنچا ہے کہ ہم اللہ رب العالمین ہی کے تابع ہوں تمہارے مصنوعی معبودوں کی پرواہ نہ کریں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ نماز پڑھتے رہو اور اسی اکیلے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یہ خوب دل میں یقین رکھو کہ وہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جس کی طرف تم نے لوٹ کر جانا ہے وہی ذات پاک ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو سچے قانون اور پختہ ضابطہ سے پیدا کیا ہے ایسے کہ کسی کو ان کی تبدیلی کی طاقت نہیں اور جس دم کسی چیز کو ” ہو“ کہتا ہے وہ فوراً ہوجاتی ہے اس کی بتلائی ہوئی بات اور اس کا حکم صادر کیا ہوا بالکل ٹھیک اور حق ہے اور اس دنیا کے علاوہ جس دن قیامت بپا ہوگی اسی کا اختیار ہوگا۔ دنیاوی حکاّم کی طرح کوئی مجازی اختیار بھی نہ رکھتا ہوگا وہی غائب اور حاضر کو برابر جانتا ہے اور وہی بڑا باحکمت باخبر ہے