وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور اس وقت کا دھیان کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : اے میری قوم ! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے کہ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تمہیں حکمران بنایا، اور تمہیں وہ کچھ عطا کیا جو تم سے پہلے دنیا جہان کے کسی فرد کو عطا نہیں کیا تھا۔
(20۔26) اور ایک عبرتناک واقعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا سنو ! یاد کرو جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا تھا۔ میرے بھائیو ! اللہ کا احسان یاد کرو۔ کہ اس نے تم میں سے انبیاء اور تم کو بادشاہ بنانے کا وعدہ کیا۔ اور تم کو ایسی چیزیں عنایت کیں جو دنیا کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دیں۔ تمہارے لئے من اور سلویٰ نازل کیا۔ تم کو دشمن سے نجات دی وغیرہ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ خطاب اس وقت ہے جب کہ وہ اور قوم ابھی میدان میں ہیں اور ابھی تک فلسطین (شام) میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ اس وقت سے پہلے بنی اسرائیل میں بادشاہ کوئی نہ ہوا تھا۔ جو ہوئے وہ بعد میں ہوئے۔ اس لئے اس آیت میں جعل اپنے اصلی معنے میں چسپاں نہیں ہوتا۔ لہٰذا میں نے اس کی وعدے سے تفسیر کی ہے۔ ممکن ہے کسی صاحب کو اس سے بھی اچھی توجیہ سوجھ جائے۔ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ۔ (منہ) یہ کہہ کر بہت ہی نرمی سے کہا۔ بھائیو ! تم بلا خوف پاک زمین کنعان میں جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں مقدر کر رکھی ہے داخل ہو چلو اور دشمن کو پیٹھ نہ دو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں آ کر نقصان اٹھائو گے۔ وہ بزدل نابکار بولے اے موسیٰ! اس ملک میں بڑے زبردست لوگ ہیں اس لئے جب تک وہ وہاں سے نہ نکلیں ہم تو وہاں جانے کے نہیں۔ ہاں اگر وہ لوگ خودبخود نکل جائیں تو ہم فوراً چلے جائیں گے۔ یہ عام رائے ان لوگوں کی تھی جن کے تم لوگ خلف کہلاتے ہو اور جن کے تعلق نسب پر اتنے اتراتے ہو کہ الامان ! ان سب کے مقابلہ میں دو آدمی یوشع اور کالب بے فرمانی سے ڈرنے والے جن پر اللہ نے مہربانی کی تھی۔ اور وہ کچھ اپنی ہمت اور استقلال پر مضبوط تھے۔ ان کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگے۔ بھائیو ! تم اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرو اور شہر کے دروازہ سے ان کے پاس چلو تو داخل ہوتے ہی تم غالب ہو گے پس چلو اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو۔ بزدل نہ بنو۔ اگر ایماندار ہو تو ایسا ہی کرو پھر بھی وہ بزدل نہ مانے بولے اسے موسیٰ! ہم تمہاری میٹھی باتوں میں نہ آئیں گے جب تک وہ اس زمین میں ہیں ہم کبھی اس میں نہ جائیں گے پس تو اور تیرا اللہ تعالیٰ جائو اور لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں یہاں سے ہلنے کے نہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ نے نہایت ناراضگی سے کہا اے میرے خدا ! میں اپنی ذات خاص اور اپنے بھائی ہارون کے سوا کسی پر قابو نہیں رکھتا پس تو ہم دونوں میں اور ان بدکار لوگوں میں علیحدگی کیجئو کہیں ان کی بداعمال کا اثر ہم تک بھی نہ پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا چونکہ انہوں نے حد سے زیادہ گستاخی کی ہے پس یہ لوگ چالیس سال تک اس پاک زمین سے محروم رہیں گے اسی طرح جنگل میں گھومتے بھٹکتے پھریں گے پس تو ان بے فرمانوں کے حال پر افسوس نہ کیجئو چنانچہ ایسا ہی ہوا حتیٰ کہ حضرت موسیٰ بھی اسی جنگل میں فوت ہوئے۔ بعد ان کے یوشع نے اس زمین کنعان کو فتح کیا۔ یہ ان کی فرمانبرداری کی مختصر تاریخ ہے جو اس وقت تیرے سامنے مدمقابل ہیں اور مارے حسد کے جلے بلے جاتے ہیں۔