الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں، اور جن لوگوں کو (تم سے پہلے) کتاب دی گئی تھی، ان کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے (٩) نیز مومنوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (١٠) جبکہ تم نے ان کو نکاح کی حفاظت میں لانے کے لیے ان کے مہر دے دیے ہوں، نہ تو (بغیر نکاح کے) صرف ہوس نکالنا مقصودہو اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا۔ اور جو شخص ایمان سے انکار کرے اس کا سارا کیا دھراغارت ہوجائے گا اور آخرت میں اس کا شمار خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا۔
(6۔19) ایسا نہ ہو کہ نکاح وغیرہ خانہ داری کے دھندوں میں پھنس کر احکام شریعت میں سستی کرنے لگو سب سے پہلا حکم عام طور حکم عام طور پر نماز کا ہے ایسا نہ ہو کہ اسے بھی کسی بہانہ سے ٹلانے لگ جائو۔ مسلمانو ! احکام شرعی کے لئے مستعد رہوجب نماز کو آمادہ ہو تو پہلے ادا کرنے اور شروع کرنے کے بغرض طہارت وضو کرلیا کرو (شان نزول (اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ) نماز کے متعلق طہارت کا طریق بتلانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ (معالم) جس کا طریق یہ ہے کہ منہ سارا اور ہاتھ کہنیوں تک اور سروں پر صرف ہاتھ پھیر لیا کرو اتنا ہی کافی ہے اور پائوں ٹخنوں تک دھویا کرو اور اگر بوجہ خروج منی نیند میں یا بیداری میں تم جنبی ہو تو نہا لیا کرو اور اگر بیمار ہو کہ نہانا مضر پڑتا ہو یا سفر میں ہو یا پائخانہ سے پھر کر آئو یا تم نے عورتوں کو چھؤا یعنی تم نے ان سے جماع کیا ہو اور ان صورتوں میں پانی نہ پائو تو ستھری اور پاک مٹی لے کر اس سے تیمم کرلیا کرو۔ جس کا طریق یہ ہے کہ مٹی اپنے مونہوں اور ہاتھوں پر کسی قدر مل لیا کرو جس سے تمہاری خاکساری اللہ تعالیٰ کے دربار میں نمایاں ہو۔ اللہ تعالیٰ کو تو دلی اخلاص منظور ہے وہ تم پر جا بے جا ناحق تنگی کرنا نہیں چاہتا کہ ایسے حکم دے جس سے تم سبکدوش نہ ہوسکو بلکہ اسے تو یہ منظور ہے کہ جس طرح ہوسکے تم دلی اخلاص اور توجہ سے اس کے حکم بردار بنو اور وہ تم کو گناہوں سے پاک و صاف کرے اور اگر تمہارا اخلاص قلبی کامل ہو تو اپنی مہربانی تم پر پوری کرے کہ روحانی درجات میں تم ترقی پائو تاکہ تم اس کے کامل شکر گذار بندے بنو۔ اللہ کی مہربانی اور مضبوط وعدے جو اس نے تم سے لئے ہوئے ہیں ان کو یاد کرو۔ جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے دل سے تیرے حکموں کو (اے نبی !) سنا اور بجان و دل تابع ہوئے۔ پس اب باخلاص تابع ہوجائو اور اس کے خلاف کرنے میں اللہ سے ڈرو۔ دل میں بھی اس کی مخالفت کا خیال تک نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ مسلمانو ! یہ احکام تو تمہاری عبادات وغیرہ کے متعلق تھے اب تمدنی احکام بھی سنو، سب سے پہلے یہ کہ ہر ایک معاملہ میں اللہ تعالیٰ لگتی گواہی انصاف سے دیا کرو اور کسی قوم کی عداوت سے بے انصافی نہ کرنے لگو بلکہ ہر حال میں عدل ہی کیا کرو کیونکہ عدل پرہیزگاری کے جو تمہارا اصل مدعا ہے۔ بہت ہی قریب اور مناسب ہے تم جو پرہیزگاربننے کے طالب ہو ہر حال میں عدل کیا کرو اور بے انصافی کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے تمہیں معلوم ہے؟ اگر تم ان احکام کی پابندی کرو گے تو تم کو کیا انعام و اکرام ملیں گے۔ (شان نزول کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ عدل و انصاف اور حقیقی تہذیب کے سکھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) پس تم جانو کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خدائی اور رسول کی رسالت پر ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے بخشش اور بڑے اجر کا وعدہ کر رکھا ہے جو کبھی خلاف نہ ہوگا اور ان کے مقابل جو منکر ہو کر ہمارے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کو جھٹلاتے ہیں وہیجہنمی ہیں۔ پس تم تعمیل احکام خداوندی میں سستی نہ کرنا۔ مسلمانو ! تمہیں اس سے بھی کچھ زاید چاہئے جو تم پر اللہ تعالیٰ نے احسان کئے ہیں۔ وہ کیا کم ہیں۔ ذرہ اس وقت کی اللہ تعالیٰ کی مہربانی کو یاد کرو جب ایک قوم یہودیوں نے تم پر حملہ کرنا چاہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تم سے ہٹا رکھا اور کامیاب نہ کیا۔ پس تم اس کا شکر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ تکلیف اور بلا میں بجز ذات باری کے کیا پر بھروسہ نہ کرو۔ کیونکہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ( اذکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ) حسب دستور مصالحین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام میں بغرض استمداد یہودیوں کے گائوں میں مع چند صحابہ کے تشریف لے گئے۔ ظالموں نے موقع پا کر آپ کے دوستوں کو تکلیف رسائی کا ارادہ کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے حضور کو ان کی بدنیتی سے مطلع کیا۔ چنانچہ آپ اسی وقت ان کی بے خبری میں ہی وہاں سے چلے آئے۔ اس قصہ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ (معالم) سچ ہے ؎ دشمن اگر قوی ست نگہبان قوی تراست (منہ) گو یہ حکم یعنی اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا اور اپنا تعلق اس سے درست رکھنا عام حکم ہے۔ ہر ایک قوم اور مذہب کے لوگ اس کے مکلف ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی اس امر ! کا وعدہ لیا تھا اور ان کے بارہ قبیلوں میں سے بارہ آدمی برگزیدہ کر کے ان پر سردار مقرر کئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا تھا کہ اگر تم اپنا تعلق مجھ سے درست رکھو گے یعنی نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانو گے اور ان کی عزت جیسن میں بتلائوں ویسی کرو گے اور اللہ کو قرض دیتے رہو گے یعنی نیک کاموں میں مال خرچ کرو گے تو میں تمہارے ساتھ ہوں گا اور میری مدد تم کو پہنچتی رہے گی۔ اور تمہارے گناہ دور کروں گا اور تم کو باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی داخل کروں گا جو تم میں سے اس کے بعد منکر ہوگا وہی سیدھی راہ سے بھٹکے گا۔ مگر انہوں (بنی اسرائیل) نے اس وعدہ کی پابندی نہ کی بلکہ اس کو توڑ دیا پس ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ ایسا کہ بدکاری کو بدکاری نہیں سمجھتے۔ (وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ بَنِیْ اِسْرَآئِ ْیلَ) یہود و نصاریٰ کو اسلام کی عداوت میں کمزور اور حق کی طرف مائل کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی (منہ) ایسے بگڑے کہ کلام الٰہی میں بھی تحریف اور تغیر کرتے ہیں اور اپنے مطالب نکال لیتے ہیں اور جن باتوں کی ان کو نصیحت ہوئی تھی ان میں سے ایک حصہ عظیم بھول کر نسیاً منسیاً کر بیٹھے ہیں۔ اب ان کے اخلاق کی حالت ایسی ردی ہو رہی ہے کہ علی الاعلان بدکرداریاں بد معاملگیاں کرتے ہیں۔ ان کی بدمعاملگی کسی وقت اور کسی زمان سے مخصوص نہیں۔ بلکہ تو ہر وقت ان سے بجز بعض معدودے چند لوگوں کے خیانت اور بد معاملگی پاوے گا۔ پھر بھی تو ان کی پرواہ نہ کر۔ بلکہ ان کو معافی دے اور درگذر کر اس لئے کہ اللہ تعالیٰ محسنوں نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے مناسب ہے کہ تو بھی احسان کر کس کس کی شکایت کی جائے۔ یہ جو آج کل بڑے جنٹلمین بنے ہوئے ہیں دعویٰ سے کہتے ہیں کہ ہم عیسائی ہیں ہم ہمدردان بنی نوع ہیں ہم مہذب ہیں ہم ایسے ہیں ہم ویسے ہیں ہم ہی کل دنیا کی خوبیوں کا مجموعہ ہیں ان سے بھی بذریعہ مسیح کے ہم نے اتباع محمدی کا پختہ وعدہ لیا تھا پھر وہ ایک غلط گھمنڈ (کفارہ مسیح) میں آ کر نصیحت کی بہت سی باتیں جو ان کو سمجھائی گئی تھیں بھول گئے۔ پھر ہم نے بھی ان سے ایسی کی کہ قیامت تک ان میں عداوت اور کینے کی آگ سلگا دی کبھی بھی کسی کام پر خصوصاً مسلمانوں کے دکھ دینے اور اسلام کے بگاڑنے پر متفق نہ ہوں گے اور ابھی تو آئندہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی کارستانیاں اور فریب بازیاں بتلا دے گا جہاں بجز ندامت کچھ نہ بن پڑے گی اے کتاب والو ! اور الہامی کتاب کے مدعیو ! ہمارا رسول محمد (صلی اللہ علہ وسلم) تمہارے پاس آیا جو بہت سی باتیں جن کو تم اپنی الہامی کتاب میں چھپاتے تھے تم پر ظاہر کرتا ہے اور بہت سی تمہاری بد اخلاقیوں اور ذاتی عیوب سے چشم پوشی بھی کرتا ہے تم شکر نہیں کرتے ہو؟ تمہارے پاس اللہ کا نور (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور روشن کتاب قرآن شریف آئی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے طالب ہیں اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور ان کو راہ راست دکھاتا ہے مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جو ایسی واضح تعلیم اور روشن کتاب سے منہ پھیریں اور جھوٹے ڈھکوسلوں کے پیچھے چلیں اور دو راز عقل باتوں کے شیدائی ہوں اس لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے ناراض ہو کر اعلان دیتا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے کچھ شک نہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے منکر ہیں گو ایسے لوگوں سے گفتگو کرنا بجز تضییع اوقات کچھ حاصل نہیں۔ بھلا کوئی دانا کہہ سکتا ہے جو ان کا خیال ہے تاہم بفحوائے ” بدرا بدر باید رسانید“ تو اے محمد ! ان سے کہہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح اور اس کی ماں مریم اور تمام جہان والوں کو ہلاک کرنا چاہے تو کوئی کسی طرح اللہ تعالیٰ کو روک سکتا ہے۔ چنانچہ تمہاری کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ مسیح نے جس کو اللہ تعالیٰ کہتے ہو سولی پر لٹکتے ہوئے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے آگے التجائیں کیں اور بڑے زور سے چلا کر جان دی آخر بجز تسلیم حق چارہ نہ ہوا تو بھلا ایسا شخص اللہ تعالیٰ ہوسکتا ہے جس کے اختیار میں اتنا بھی نہ تھا کہ اور تو اور اپنے ہی کو اس مصیبت سے جس کے لئے بارہا رو رو کر دعائیں مانگ چکا تھا۔ بچا لیتا اور اللہ تعالیٰ کا تو وہ اختیار ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کل حکومت اللہ ہی کی ہے جو چاہے پیدا کر دے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قادر ہے اور مسیح کی قدرت تو (بقول تمہارے یہاں تک بھی ثابت نہ ہوئی کہ اپنے آپ ہی کو بچا لیتا۔ باوجود اس ڈبل بد اعتقادی کے یہ دونوں گروہ یہودی اور عیسائی دعوے سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور پیارے ہیں چہ خوش برعکس نہند نام زنگی کافور۔ تو اے نبی ! ایک مختصر سا سوال کرنے کو ان کو کہہ کہ اگر تم اللہ کے پیارے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تم کو گاہے بگاہے عذاب کیوں کیا کرتا ہے۔ یہ دعویٰ تو تمہارا غلط ہے بلکہ تم اس کی مخلوق میں سے اور آدمیوں کی طرح آدمی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی حکومت عام ہے جس کو اخلاص اور نیک اعمال کی وجہ سے بخشنا چاہے بخش دیتا ہے اور جس کو بد اعمالیوں کی سزا میں عذاب دینا چاہے عذاب کرتا ہے۔ کوئی اس کو روکنے والا نہیں کیونکہ کل آسمانوں اور زمینوں کی اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کی حکومت اللہ ہی کو ہے پھر روکے تو کون؟ اپیل سنے تو کون؟ اسی کی طرف تو سب چیزوں کا رجوع ہے ممکن نہیں اس کے حکم کے بغیر کوئی کام ہوسکے یا کوئی چیز وجود پا سکے وہی سب کا مرجع ہے اور وہی سب کی پناہ ہے پس اے کتاب والو ! ان ایچ پیچ کی باتوں کو چھوڑو ہمارا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رسولوں کے خاتمہ پر آ کر تم سے صاف صاف باتیں اور احکام الٰہی بیان کرتا ہے اس کی اتباع کرو اب تم کو خاص کر توجہ اس لئے دلائی جاتی ہے کہ مبادا کل قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ بعد حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح کے مدت مدید گزر گئی تھی اور ہمارے پاس کوئی نبی نیک کاموں پر خوشخبری سنانے والا اور برے کاموں سے ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ تو ہم مدتوں کے بگڑے ہوئے درست کیسے ہوتے۔ لو پس اب تو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا سچا نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا۔ اپنی قوت اور جمعیت پر نازاں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے کسی طرح مقابلہ نہ کرسکو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قادر ہے پس تم اس گھمنڈ میں نہ رہو