إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر الکتاب سچائی کے ساتھ نازل کردی ہے تاکہ جیسا کہ کچھ خدا نے بتلا دیا ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ اور خیانت کرنے والوں کی طرف داری میں نہ جھگڑو (یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کی وکالت میں فریق ثانی سے جھگڑو)
(105۔134)۔ اس جنگ جہاد سے یہ ہرگز منظور نہیں کہ تم خونخواروں کی طرح موقع بے موقع آدمیوں کو تنگ کرتے پھرو اور مسلمان اور کافر کے معاملہ میں مسلمان ہی کو خواہ مخواہ چاہے وہ غلطی پر بھی ہو ترجیح دینے لگو ہمیں ہرگز یہ منظور نہیں بلکہ ہم نے تو یہ سچی کتاب تیری طرف اس لئے اتاری ہے کہ تو لوگوں میں اللہ کے بتلائے ہوئے قانون سے حکم کرے (شان نزول :۔ (انا انزلنا) ایک شخص نے کسی دوسرے کی بوری آٹے کی چرا کر ایک یہودی کے ہاں رکھ دی لوگوں میں جب اس چوری کا چرچا ہوا تو بعض لوگوں نے آٹے کے نشان سے پہچانا کہ یہاں سے آٹا نکل کر اس یہودی کے مکان پر گیا ہے اس یہودی سے دریافت کیا تو اس نے اصل چور کا نام لے دیا۔ اس چور کی برادری کے لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت شریف میں آ کر واویلا کیا کہ ہمارا آدمی ناحق بدنام ہو رہا ہے آپ لوگوں کو سمجھا دیں کہ اس کا نام نہ لیں چنانچہ آپ نے ان کے ظاہری حال پر رحم کھا کر چاہا کہ لوگوں کو اس کے نام لینے سے روکیں مگر چونکہ درحقیقت اسی کا کام تھا اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) عدالتی احکام میں پہلا حکم یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم میں تمیز کرو اور دغابازوں کے حمایتی نہ بنو اس فیصلے میں غلطی ہوجائے تو اللہ سے اس کی بخشش مانگا کرو وہ معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور ان بدمعاشوں کی طرف سے جھگڑا نہ کیا کرو جو اپنے بھائیوں بنی نوع کی خیانت کرتے ہیں ان کے اموال کو اور جان کو ناجائز طریق سے نقصان پہنچاتے ہیں اللہ کو دغا باز بدکار ہرگز نہیں بھاتے یہ بدکار نہیں سمجھتے کہ لوگوں سے تو چھپ سکتے ہیں اللہ سے نہیں چھپ سکتے اس لئے کہ جب رات کو ناپسندباتوں کے مشورے کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ان کے ساتھ ہوتا ہے ناپسند باتوں ہی کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ ان کے تمام اعمال کا اللہ نے احاطہ کر رکھا ہے بھلا تم نے دنیا میں تو ان کی طرف سے جھگڑا کرلیا قیامت کے روز ان کی طرف سے کون جھگڑے گا یا کون ان کی کارسازی کرے گا کوئی نہیں البتہ دنیا میں اس بداعمالی کا تدارک ممکن ہے کہ جو شخص براکام کرے جس سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے یا کسی بھائی بنی نوع میں سے کسی پر ظلم کرے جس سے دوسرے کو صدمہ مالی بدنی یا روحانی پہنچے پھر اللہ سے ڈر کر مظلوم سے معافی چاہے اور اپنے افعال قبیحہ پر اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگے اللہ کی بخشش اور مہربانی کا حصہ ضرور پاوے گا ان بدکاروں کو چاہئے کہ اپنی بداعمالیوں کا بہت جلد علاج کریں اس لئے کہ جو کوئی گناہ کرتا ہے اپنا ہی برا کرتا ہے کسی کو اس کی خرابی نہیں پہنچے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اور ساتھ ہی اس کے بڑی حکمت والا ہے اس کی حکمت اور دانائی اس کے مخالف ہے کہ کسی کا کیا کسی پر ڈالے اور یہ بھی سن لو کہ جو شخص کسی قسم کا چھوٹا موٹا گناہ کرکے کسی بے گناہ کے ذمہ لگاتا ہے وہ سخت سزا میں مبتلا ہوگا کیونکہ اس نے بڑا بہتان یعنی الزام اور صریح گناہ اپنے سر اٹھایا سچ تو یہ ہے کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اے نبی تیرے شامل حال نہ ہوتی کہ وقت بوقت تجھے تیرے مخالفوں کے حال سے مطلع نہ کرتا تو تو ضرور غلطی کر بیٹھتا اس لئے کہ ان میں سے ایک جماعت تیرے بہکانے کا قصد کرچکی تھی کہ تجھے کسی طرح غلطی میں ڈالیں کہ خلاف واقع سچ جھوٹ بول کر تجھ سے فیصلہ کرالیں لیکن دراصل وہ اپنے آپ کو بہکاتے ہیں کہ ان کی ایسی کوششوں کا وبال انہی کی جان پر ہوگا جس کا عوض پائیں گے اور تجھے کچھ بھی ضرر نہ دے سکیں گے تو بلا ان کے بھلانے بہکانے سے کیسا بھول جائے گا تجھ پر تو اللہ نے کتاب قرآن شریف اور دانائی اور فہم کی باتیں اتاری ہیں اور تجھے وہ باتیں سکھائی ہیں جو تو نہیں جانتا تھا اور علاوہ اس کے تجھ پر اللہ کا بڑا فضل ہے پھر بھلا جس کی حمایت اور حفاظت اس طور سے ہو اس کو یہ خام عقل والے کیا ضرر دے سکتے ہیں پڑے سرگوشیاں کریں ان کی بہت سی کانا پھوسیوں میں بھلائی نہیں ہاں جو شخص اپنی سرگوشی میں دوسرے کو صدقہ یا نیک کام یا لوگوں میں اصلاح کرنے کا حکم کرے اس کی کانا پھوسی البتہ بہتر ہے کیونکہ جو کوئی یہ کام اللہ کی مرضی حاصل کرنے کو کرتا ہے ہم اس کو بہت بڑا اجر دیں گے اور جو شخص بعد معلوم ہونے ہدایت کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور مومنوں کی خلاف راہ چلے گا تو جس طرف اس نے رخ کیا ہم بھی اسی طرف اس کو پھیر دیں گے اور انجام کار اس کو جہنم میں داخل کریں گے جو بہت بری جگہ ہے (شان نزول :۔ (ومن یشاقق الرسول) جس چور کا پہلی آیت میں ذکر ہے بعد ثبوت چوری کے مکہ کے مشرکوں میں جاملا اور اسلام اور اہل اسلام سے مرتد ہوگیا اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم راقم کہتا ہے یہ حالت اور سزا مرتد کی جب ہے کہ ارتداد پر قائم رہے اور اگر توبہ کر کے مسلمان ہوجائے تو سب کچھ معاف ہے چنانچہ الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا فان اللہ غفور رحیم میں ارشاد ہے۔ منہ) جس روز ایسے امور کا عام فیصلہ ہوتا ہے اس روز کا قانون یہ ہے کہ اللہ شرک کے جرم کو ہرگز نہیں بخشے گا اور سوائے اس کے جو چاہے گا بخش دے گا اس لئے کہ جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ بڑی ہی دور کی گمراہی میں پڑجاتا ہے دیکھو تو کیا احمق پن ہے کہ اللہ کے سوا عورتوں جیسی کمزور چیزوں کو پکارتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ ہم کن کو پکار رہے ہیں وہ اپنی زندگی میں نیک ہوں یا مقرب الٰہی ہوں مگر درجہ خداوندی اور حاجت روائی تو کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہوسکتا گو بظاہر اپنے زعم میں ان بزرگوں کی عبادت کرتے ہیں مگر درحقیقت یہ لوگ شیطان مردود کو پکاررہے ہیں جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ضرور ایک حصہ اپنا تابعدار بنالوں گا اور ان کو گمراہ کروں گا جس کا طریق یہ ہوگا کہ ابتدا میں ان کے جی میں امیدیں ڈالوں گا اور بعد اس کے جب وہ کسی قدر اس میں مصروف ہوں گے تو ان کو حکم دوں گا تو چار پاؤں کے کان پھاڑیں گے اور غیر اللہ کے نام سے ان کو وقف کریں گے اور پھر ان کو حکم دوں گا تو وہ اللہ کی صفت خلق کو بدل دیں گے یعنی اللہ کی پیدا کی ہوئی اور دی ہوئی چیز کو غیر اللہ کی طرف نسبت کریں گے یادرکھو جس نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو جس کے ارادے تمہاری نسبت یہ ہیں جو ذکر ہوئے اپنا دوست بنائے گا تو وہ صریح ٹوٹا پائے گا سنو ! شیطان تو ایسا مکار ہے کہ یونہی ان کو بذریعہ خام خیالوں کے وعدے دیتا ہے کہ تم فلاں قبر کی منت مانویا فلاں بت کے آگے مٹھائی رکھو تو تمہا را یہ کام ہوجائے گا اور ان کو آرزوئیں دلاتا ہے کہ فلاں قبر پر نذر چڑھانے سے قیامت کے روز ان کی شفا عت سے نجات ہوجائے گی دنیا کا فلاں کام سنور جائے گا وہ احمق لوگ جو اس کے خیال میں آجاتے ہیں ویسا ہی کرتے ہیں اور حقیقت میں ان کو جھوٹی آرزوئیں دلا تا ہے پس جو لوگ اس کی باتوں میں پھنس جاتے ہیں انہی لوگوں کا ٹھکا نہ جہنم ہے جہاں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا اور اس سے کہیں نکلنے کی راہ نہ پاویں گے اور ان کے مقابل وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام بھی کیے ان کو ہم باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی جن میں ہمیشہ رہیں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے بتلائو تو اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے پس اگر تم بھی اسے ایسا ہی مانتے ہو تو سنو ! کہ نجات کا مدار نہ تمہاری مشرکوں کی خواہشوں پر ہے کہ بت پرستی سے ہر قسم کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور نہ اہل کتاب کی مرضی پر ہے (شان نزول :۔ (لیس بامانیکم) مشرکین عرب اور یہود نصاریٰ جو اپنی اپنی غلط فہمیوں کی وجہ سے بےدینی کو دین سمجھ کر راہ نجات جانتے تھے ان کے سمجھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) کہ مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نجات حاصل ہوجاتی ہے نیک اعمال موجب نجات نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جو کوئی برا کام کرے گا اس کی سزا اٹھائے گا اور اللہ کے سوا کسی کو اپنا حمائتی اور مددگار نہ پاوے گا اور ایسا ہی جو شخص مرد ہو یا عورت جو مسلمان ہو کر نیک کام کریں گے سو جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہ ہوگا کہ ان کے اعمال صالحہ میں سے کچھ کم کیا جائے کیوں نہ ان لوگوں کو ایسا بدلہ ملے جنہوں نے اللہ کے حکموں کو بدل و جان قبول کرلیا کیا کوئی شخص اس سے بھی اچھا دین دار ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کا تابعدار بنایا پھر اس کی مرضی کے موافق نیک کام بھی کرتا رہا اور خاص کر یہ خوبی کہ ابراہیم ( علیہ السلام) یکطرفہ کے طریق پر چلا اور کامل اخلاص کی وجہ سے ابراہیم کو اللہ نے اپنا مقرب بندہ بنایا تھا یوں تو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کی ملک ہے کوئی مقرب بننے سے اس کا ساجھی نہیں ہوسکتا دنیا کے بادشاہوں پر جو وزیروں کے قبضے میں سب کچھ دے رکھتے ہیں اللہ کی حکومت کو ان پر قیاس کرنا غلط ہے اللہ باوجود اس قدر وسیع سلطنت کے بذات خود سب کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر ایک بات کو مناسب جانتا ہے اور اسی کے موافق حکم دیتا ہے لہذا تو اس کی تبلیغ میں سر گرم رہ اور رسوم قبیحہ (شرک کفر اور چھوٹی لڑکیوں کا قتل اگر بڑی ہوں تو والدین کے مال سے انکو محروم کرنا یتیم لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لاکر ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم کرنا وغیرہ وغیرہ) کے مٹانے میں کوشش کرتا رہ تیری کوشش کا نتیجہ ہے کہ اکثر لوگ شرک کفر چھوڑ کر اب اس درجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ عورتوں کی بابت تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کو نکاح میں لاکر کس طرح معاملہ کریں (یستفتونک) خانہ داری کے متعلق انصاف اور اخلاق برتنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) تو ان کو کہہ دے کہ اللہ خود تم کو عورتوں کی بابت بڑے انصاف کا حکم دیتا ہے اور وہ حکم وہی ہے جو تم کو کتاب (قرآن) میں ان یتیم لڑکیوں کے حق میں سنایا جاتا ہے جن کو تم پورا حق مقرر نہیں دیتے اور بوجہ خوبصورتی اور مالداری کے ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو اور جو ضعیف اور ناتواں بچوں کے لئے تمہیں اسی کتاب قرآن میں سنایا جاتا ہے کہ ان کے ماں باپ اور قریبیوں کے مال سے ان کو خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں حصہ موافق شریعت دیا کرو اور خلاصہ سب کا یہ ہے کہ یتیموں سے انصاف کی کاروائی کرو جو ان کے حقوق واجبہ اور جائزہ ہیں عمدہ طور سے ادا کرو اور علاوہ اس کے جو کچھ تم ان سے یا کی غیر سے بھلائی کرو گے اس کا بدلہ پائو گے اس لئے کہ اللہ کو سب معلوم ہے بیوی خاوند ہمیشہ مصالحت سے نباہ کریں اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی بد مزاجی یا بے پرواہی معلوم کرے تو ان کو باہمی صلح کرلینے میں گناہ نہیں کسی طرح سے خواہ نان و نفقہ کی کمی سے بھی ہو عہد وپیماں جائز طور سے کرلیں غرض صلح سے رہیں کیونکہ صلح عموماً بہ نسبت فساد کے بہتر ہے کوئی فریق اس بات کا خیال نہ رکھے کہ میرا کسی طرح کا نقصان نہ ہو ایسا کرنے سے صلح نہ ہوگی اس لئے کہ ہر نفس کو اپنے فائدے کا لالچ ہے دوسرے کا نقصان ہی کیوں نہ ہو اپنا ہی فائدہ ہر ایک کو ملحوظ رہتا ہے یہ عادت اچھی نہیں بلکہ اگر تم آپس میں احسان کرو گے اور ظلم وستم کرنے سے بچو گے تو اللہ کے ہاں اس کا بڑا ہی اجر پائو گے کیونکہ اللہ تمہارے سب کاموں سے خبر دار ہے تمہارے سب کا موں کا پورا بدلہ دے گا اس حکم خانہ داری کا ایک ذمیمہ ہنوز بیان طلب ہے وہ بھی سنو کہ متعدد بیویوں کی صورت میں تم ہر ایک کے ساتھ کھانے پینے دلی محبت وغیرہ میں برابری ہرگز نہ کرسکو گے گو تم خواہش بھی کرو کیونکہ یہ امر متعذر بلکہ قریب محال ہے پس منع یہ ہے کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جائو کہ دوسری کو لٹکتی ہوئی چھوڑو کہ نہ وہ ایسی ہو کہ خاوند دار کہلائے حالانکہ تم اسے پوچھو نہیں اور نہ بے خاوند بیوہ ہے کیونکہ تم نے اسے قید رکھا ہے چھوڑتے نہیں اور اگر آپس میں صلح سے رہو گے اور اختیاری معاملات یعنی کھانا پینا اور شب باشی میں ظلم سے بچو گے تو دیگر امور (جیسے دلی لگائو کا کسی طرف زائد ہونا) اللہ تم کو معاف کردے گا کیونکہ اللہ بڑابخشنے والا مہربان ہے ناموافقت کی صورت میں عورت کو بند کرنے سے چھوڑ دینا بہتر ہے اگر دونوں علیحدہ ہوجاویں گے اور ایک دوسرے کے ظلم سے دور رہیں گے تو اللہ بھی اپنی فراخ دستی سے ان کو ایک دوسرے سے بے پرواہ کر دیگا ایسا کرنا اللہ سے کچھ دور نہیں اس لئے کہ اللہ بڑی فراخی والا ہے جس قدر چاہے ہر ایک کو دے سکتا ہے اور ساتھ ہی بڑی حکمت والا ہے کہ ایسے طور سے دیتا ہے جو کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آتا فراخی اس کی کا یہی ثبوت کافی ہے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے درحقیقت اللہ ہی کی ملک ہے چونکہ آسمان اور زمین کے سب لوگ کیا پہلے اور کیا پچھلے ہمارے ہی غلام اور مخلوق ہیں اس لئے ہم نے تم سے پہلے کتاب والوں (یہود و نصاری) کو اور تم کو بھی یہی نصیحت کر رکھی ہے کہ اللہ سے جو سب آسمانوں اور زمینوں کا مالک ہے ڈرتے رہو کسی حال میں اس کی بے فرمانی مت کرو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہوگا (شان نزول :۔ (ولقد وصینا الذین) اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے بعض سوالوں کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) اور اگر تم ناشکری کرو گے تو اس کا کوئی حرج نہیں جو کچھ حرج ہے تمہارا ہی ہے کیونکہ جو کچھ آسمان اور زمین میں سب اللہ ہی کا ہے کوئی شے دنیا میں نہیں جو اس کی ملک نہ ہو با وجود اس قدر وسعت کے اللہ تعالیٰ ان سب سے بے پرواہ اور وہ بڑی خوبیوں والا ہے پھر سن رکھو آسمان اور زمین کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں اگر بھلائی اپنی چاہو تو اسی کے ہو رہو اللہ اکیلا کار ساز کافی ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی کی حاجت نہیں وہ ایسا بڑازبردست مالک ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو اس دنیا سے فنا کو لے جاوے اور تمہاری جگہ اوروں کو لے آوے یعنی تم کو فنا کر کے تمہاری جگہ اور مخلوق بسا دے یقیناً سمجھو کہ اللہ اس پر قادر ہے ایسے مالک الملک کی مرضی کے خلاف جو شخص فقط دنیا ہی کا انعام چاہتا ہے کیسی سخت غلطی میں ہے اسے چاہئے تھا کہ دونوں جہانوں کا انعام مانگے کیونکہ اللہ کے ہاں دنیا اور آخرت دونوں کا انعام موجود ہے اس کی وسعت اس امر کی مقتضی ہے کہ صرف دنیا اس سے طلب نہ کی جائے بلکہ دونوں جہاں کی بھلائی اس سے مانگی جائے وہ ہمیشہ مناسب مصلحت دیتا ہے اور اللہ سب کی سنتا ہے اور سب کو دیکھتا ہے