سورة المدثر - آیت 31

وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے دوزخ کے داروغے فرشتے ہی بنائے ہیں اور ان کی تعداد (انیس) کا کافروں کے لیے فتنہ بنادیا ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے، اور اہل کتاب اور مومنین کو (قرآن مجید کی صداقت میں) کسی قسم کا شبہ نہ رہے اور جن کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے اور کفاریہ کہیں کہ ایسی باتوں کے بیان کرنے سے اللہ کو کیا غرض ہے؟ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے اور تمہارا پروردگار اس کاراز ہستی کی کارفرمائیوں کے لیے) جوفوجیں رکھتا ہے، ان کا حال اس کے سوا کون جانتا ہے؟ اور یہ (دوزخ کا ذکر) تو صرفنصیحت کے لیے ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

جو اس میں ڈالے ہوئے مجرموں کی نگرانی کرتے ہیں فرشتوں کا نام سن کر تم حیران نہ ہو کیونکہ ہم نے جہنم کے محافظ فرشتے ہی بنائے ہیں اور کسی کا یہ کام نہیں اور ہم نے ان کی گنتی اتنی تھوڑی مقرر کی ہے اور بتائی بھی تھوڑی ہے تاکہ منکروں کے لئے پریشانی ہو وہ اپنے زعم میں اس مقدار کو اتنا کم جانتے ہیں کہ ان پر ہنستے ہیں اور اہل کتاب اس بات پر یقین کریں کیونکہ وہ فرشتوں کی قوت کو جانتے ہیں اور ایماندار مسلمان لوگ ایمان میں ترقی کریں اور اہل کتاب اور مسلمان کسی قسم کا شک نہ کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فرشتوں میں قوت روحانی ہے اور اس مقدار بتانے کا یہ بھی نتیجہ ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں باوجود ادعائے ایمان کے ضعف اور اغراض دنیا ویہ کی بیماری ہے اور جو صریح کافر اور منکر اسلام ہیں وہ کہیں گے کہ یہ بات بتانے میں اللہ کی کیا غرض ہے کہ اتنے فرشتے ہوں گے ان کے نزدیک یہ تعداد کوئی کہاوت ہے حقیقت نہیں۔ اسی طرح اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی بات سمجھنے سے گمراہ کردیتا ہے ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ کلام الٰہی کو صحیح معنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے نہ سمجھنا چاہتے ہیں اور اپنے فضل وکرم سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اصلی بات یہ ہے کہ تیرے رب کی فوج اسباب عذاب کو خود ہی جانتا ہے مجرم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اکڑیں گے یا ہم بھاگ جائیں گے ان کو خبر نہیں کہ ان کے اجسام کی ہڈی بوٹی بلکہ بال بال بھی اللہ کی فوج ہے وہ جس بال کو جس ہڈی کو حکم دے وہی عذاب قائم کر دے۔ پھر یہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد سن کر کیوں مخول کرتے ہیں وہ تو ایک انتظامی صورت ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہر چیز اس کی سپاہی ہے اور وہ جہنم یعنی اس کا ذکر اذکار انسانوں کے لئے صرف نصیحت ہے