سورة المزمل - آیت 9

رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ پروردگار تمام عالم میں اسی کی ربوبیت کارفرما ہے اور اس کے سوا کارساز عالم اور کوئی نہیں سو جب ایسا کارساز تمہارے ساتھ ہے تو تم اور کسی کی طرف کیوں نظر اٹھاؤ ؟ بس اسی کو اپنا کارساز یقین کرو

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

کیونکہ وہ مشرق مغرب کے باشندوں بلکہ سب اشیاء کا پروردگار ہے اسی لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تو اسی کو اپنا کارساز حامی کار سمجھ تیرے منہ سے ہر وقت یہی نکلے۔ ہیں تیرے سوا سارے سہارے کمزور سب اپنے لئے ہیں اور تو سب کے لئے یہ آیت قرآن کے توحیدی مضامین کی روح ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا امر ہے جو بہت مامور کی بنا ہے انسان ہمیشہ اپنی ضروریات میں کسی کی مدد اور حمائت کا متلاشی ہوا کرتا ہے مشرکین اسی تلاش میں دربدر مارے مارے پھرتے ہیں کہ کہیں کوئی مددگار حامی مل جائے قرآن پاک کی اس آیت میں اللہ نے اپنے موحد بندوں کو اس سرگردانی سے سبکدوش کرنے کو سب سے بڑا حامی مددگار بتا دیا ہے کہ وہ اللہ جل شانہ ہے پس مسلمان کامل الایمان اس حامی مددگار کو چھوڑ کر کسی بے جان یا جاندار زندہ یا مردہ کو کیوں حامی بنانے لگا بلکہ اس کا قول یہی ہوگا پناہ بلند و پستی توئی ہمہ نیستد آنچہ ہستی توئی مسئلہ توحید سمجھانے کو ہم یہاں ایک مثال دیتے ہیں کہ کم فہم آدمی بھی جس سے توحید کا مضمون خوب سمجھ جائے۔ مثلاً ایک مکان دو منزلہ ہے نیچے کی منزل میں نوکر لوگ رہتے ہیں اوپر کی منزل میں مالک رہتا ہے اس لئے نیچے اور اوپر کے حصوں میں فرق ہوگا یعنی نیچے کے حصے میں بے اجازت داخل ہونا منع نہ ہوگا مگر اوپر کے حصے میں منع ہوگا وغیرہ۔ اسی طرح انسانی ضروریات دو قسم کی ہیں۔ (١) پہلی وہ ہیں جن میں ایک انسان دوسرے کی مدد کرسکتا ہے بلکہ کرتا ہے جیسے کھانا کھلانا پانی پلانا۔ کپڑا سی دینا کسی حاکم سے سفارش کردینا وغیرہ ان امور میں اگر ایک حاجت مند انسان دوسرے سے مدد مانگے تو جائز ہے مثلاً کسی سے کہے مجھے پانی پلا دو۔ مجھے فلاں چیز لا دو۔ میری سفارش کر دو وغیرہ ایسے امور کی نسبت قرآن مجید کی صریح تعلیم ہے۔ تعاونوا علی البر والتقوی (یعنی باہمی نیک کاموں میں مدد کیا کرو)۔ دوسرے وہ امور ہیں جو اللہ نے محض اپنے قبضے میں رکھے ہیں۔ مثلاً (١) اولاد دینا (٢) مرض میں شفا دینا (٣) رزق دینا (٤) موت و حیوۃ وارد کرنا (٥) بارش کا اتارنا (٦) سبزیوں کا پیدا کرنا وغیرہ۔ یہ سب امور ایسے ہیں کہ قرآن مجید نے ان امور کو قبضہ الٰہی میں بتایا ہے اور اللہ کے سوا کسی دوسرے کا ان میں تصرف جائز نہیں رکھا اب ہر ایک دعویٰ کی دلیل پیش کی جاتی ہے سنیے ارشاد ہے۔ (١) یھب لمن یشآء انا ثاو یھب لمن یشآء الذکور اویزوجھم ذکرانا واناثا ویجعل من یشآء عقیما انہ علیم قدیر (پ ٢٥ ع ٦) یعنی اللہ ہی جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جیسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے دونوں قسمیں لڑکے اور لڑکیاں بخشتا ہے جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے بے شک وہ سب کچھ جاننے والا اور قدرت والا ہے۔ اس آیت کا مضمون بالکل صاف ہے کہ اولاد کا دینا خاص الٰہی فعل ہے اس میں کسی دوسرے کو دخل نہیں۔ (٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مصدقہ قول قرآن مجید میں مذکور ہے جس میں ارشاد ہے واذا مرضت فھو یشفین (میں جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا بخشتا ہے) اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرض میں شفا پیدا کردینا خاص اللہ کے اختیار میں ہے۔ (٣) رزق کی وسعت اور تنگی کی بابت ارشاد ہے اولم یروا ان اللہ یبسط الرزق لمن یشآء ویقدر ان فی ذلک لایات لقوم یؤمنون (پ ٢١ ع ٧) کیا لوگ جانتے نہیں کہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے بے شک اس امر میں مومنوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (٤) موت و حیوۃ کی بابت صاف ارشاد ہے وانہ ھو امات و احی (پ ٢٧ ع ٦) تحقیق اللہ ہی سب کو زندگی بخشتا اور مارتا ہے۔ (٥) امن خلق السموت والارض وانزل لکم من السمآء مآء فانبتنابہ حدآئق ذات بھجۃ ما کان لکم ان تنبتوا شجرھاء الہ مع اللہ بل ھم قوم یعدلون (پ ٨ ع ١) یعنی اللہ کے کس نے آسمان زمین بنائے اور کون تمہارے لئے اوپر پانی سے اتارتا ہے سب کچھ ہم (اللہ) ہی کرتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ تمہارے لئے رونق دار باغ پیدا کرتے ہیں جو تم سارے مل کر بھی نہیں اگا سکتے کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہے۔ کوئی نہیں مگر مشرک لوگ ٹیڑھے جاتے ہیں۔ یہ آیات اور ان جیسی اور بہت سی آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام قبضہ قدرت الہیہ میں ہیں کسی کو ان میں دخل نہیں۔ پس ان امور میں اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہیے اسی کے متعلق ارشاد ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ یعنی اللہ نے تعلیم دی ہے کہ اے میرے بندو ! تم کہا کرو۔ ” اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں “ پس ان امور میں اللہ کے سوا (زندہ ہو یا مردہ نبی ہو یا ولی۔ صدیق ہو یا شہید) کسی سے بھی مدد مانگنا یا امداد پہونچنے کا خیال کرنا صریح شرک ہے۔ مثلاً ایک بیمار ہے وہ اپنے معالج سے تشخیص مرض میں امداد لے تو جائز ہے اور دوا سازی میں اپنے ساتھیوں سے مدد لے تو جائز ہے مگر شفا پیدا کرنے میں کسی پر نظر نہ رکھے واذا مرضت فھو یشفین اس طرح کسی شخص کو اولاد کی ضرورت ہے وہ نکاح کرے نکاح کرنے میں اپنے واقفوں سے مدد لے کوئی مانع اولاد ہے تو طبیب سے علاج میں استمداد کرے مگر اولاد پیدا کرنے والا صرف اللہ کو جانے اس فعل میں کسی پر نظر نہ رکھے یہب لمن یشاء اناثا الایۃ یہ ہیں اصول توحید جن کی بابت اس آیت میں ارشاد ہے و تبتل الیہ تبتیلا فاتخذہ و کیلا پس جو لوگ یہ شعر پڑھتے ہیں یا اس کے مضمون کے قائل ہیں اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد سے انہوں نے نہ اللہ جل شانہ کی معرفت حاصل کی نہ محمد (ﷺ) کو پہچانا سچ ہے ما قدروا اللہ حق قدرہ۔ اللم ارناا لحق حقا والباطل باطلا۔ منہ