أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا
جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے انکو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) بتوں اور شیطان کی تصدیق کر رہے ہیں اور کافروں (یعنی بت پرستوں) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مومنوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ (٣٧)
(51۔59)۔ کیا تو نے ان میں سے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کچھ حصہ کتاب الٰہی کا ملا تھا وہ کیسی بےدینی کر رہے ہیں ب ے دینی کی باتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اگر وقت پر بتوں کے آگے سجدہ بھی کرنا پڑے تو کردیتے ہیں (شان نزول :۔ (الم ترا الی الذین) ایک دفعہ بعض یہودی اپنے بچوں کو اٹھا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے اور پوچھا کہ بتلائیے ان پر بھی کوئی گناہ ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ اسی طرح ہم بھی گناہوں سے صاف ہیں ہمارے دن کے گناہ رات کو محو ہوجاتے ہیں اور رات کے دن کو اس کے متعلق یہ آیت نازل ہئوی۔ م۔ راقم کہتا ہے کہ زمانہ حال کے بعض پیر اسی طرح اپنی شیخیں بگھارتے اور اللہ سے مردود ہوتے ہیں ان آفتوں کی جڑ حب دنیا ہے۔ (نعوذ باللہ) اور کافروں کے حق میں جو شرک کفر میں مبتلا ہیں کہتے ہیں یہ مسلمانوں سے سیدھی راہ پر ہیں کیسے ظلم کی بات ہے کیوں نہ کریں انہی پر اللہ نے لعنت کی ہے جس کے سبب سے دین اور دنیا میں ذلیل اور خوار ہوں گے کیوں نہ ایسے ہوں جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لئے تو کوئی حمائتی نہ پاوے گا جو اس کو ذلت اور خواری سے بچاوے باوجود اس کے پھر اتنی دلیری سے کفر اور شرک لوگوں کو سکھاتے ہیں کیا ان کا بھی اللہ کے ملک میں کچھ حصہ ہے کہ جو چاہیں اپنے صوبے میں احکام نافذ کریں اور جس کو چاہیں رزق دیں پھر تو علاوہ بےدینی کے لوگوں کو بوجہ اپنے بخل کے ایک رائی برابر بھی نہ دیتے جب یہ کچھ نہیں تو پیغمبر کے مقابلہ میں لوگوں کو کفر اور شرک کی باتیں بتانا کیا معنی کیا یہ لوگوں (رسول اور اس کے اتباع) سے اللہ کے دیے ہوئے فضل پر حسد کرتے ہیں کہ ان کو ہدائت کیوں ملی یہ کیوں ممتاز قوم بنتے جاتے ہیں سو یہ بھی غلط خیال اور برا فعل ہے اس لئے کہ ہم نے پہلے بھی تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور تہذیب دی تھی اور دنیا میں بھی ان کو بڑا ملک بخشا تھا جس سے ان کے دونوں پہلو (دین اور دنیا کے) قوی ہوگئے تھے کیا ان کے حاسد ان کا کچھ بگاڑ سکے تھے جو یہ لوگ مسلمانوں سے حسد کر کے ان کا بگاڑیں گے حاسد محسود کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ اپنا ہی بگاڑتا ہے کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ حسدباہل حسد کار میکندصائب چنانکہ آتش سوزندہ میخورد خود را پھر یہ سنتے ہی بعض تو ان میں سے نبی کو مان گئے اور بعض ابھی تک اس سے انکاری ہیں جس میں انہی کا حرج ہے ان کے جلانے کو جہنم کافی ہے کچھ ہی کریں ہمارے ہاں عام قائدہ ہے کہ جو لوگ ہمارے احکام سے منہ پھیرتے ہیں ہم ان کو ضرور ہی آگ میں ڈالیں گے۔ جہاں پر ان کی حالت یہ ہوگی کہ جب کبھی ان کے چمڑے جل جایا کریں گے ان کے عوض ہم ان کو چمڑے اور بدل دیا کریں گے ( کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدَھُمْ) اس آیت کے مضمون سے بعض آریوں نے مسئلہ تناسخ پر دلیل پکڑی ہے اس کے علاوہ اور کئی آیتوں سے بھی جو اس کی ہم معنی ہیں جن کی فہرست ہم ذیل میں دیں گے مطلب براری کرنے کی کوشش کی ہے آیات مذکورہ کے بتلانے سے پہلے آریوں کا دعویٰ جس پر وہ ان آیات کو بطور الزامی دلائل کے پیش کیا کرتے ہیں بتلانا ضروری ہے جو انہیں کے الفاظ میں درج ہے۔ آریوں کا مذہب ہے کہ دنیا میں جو بندے گناہ کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے حیوانوں کے قالبوں میں ان کو جانا پڑتا ہے مگر کس طرح؟ بیٹھے بیٹھے حیوان نہیں بن جاتے بلکہ باقاعدہ انڈے کے اندر یا حیوانوں کے پیٹ میں جسم تیار ہوتا ہے اس میں گناہ گار آدمی کی روح ڈالی جاتی ہے۔ غرض دنیا کا انتظام جس قدر اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور حیوانوں میں ملاپ کا رکھا ہے یہ سب انتظام بندوں کے گناہوں پر موقوف ہے چنانچہ آریہ مذہب کا ایک بڑا حامی (پنڈت لیکھرام) اپنے رسالہ ثبوت تناسخ میں یوں رقمطراز ہے۔ ” مسئلہ اور گون (تناسخ) کے رو سے دو قسم کے جسم مانے گئے ہیں ایک کرم جونی (اعمال خانہ) دوم بھوگ جونی (سزا خانہ) جس جسم میں سمجھنے کی طاقت اور نیک و بد کرنے کی تمیز دی گئی ہے وہ کرم جونی اور جس جسم میں نہیں دی گئی وہ بھوگ جونی ہے اس لحاظ سے انسان کرم جونی اور باقی بھوگ جونی ہیں چونکہ حیوان بھوگ جونی ہیں وہ نیک یا بدکام کر نہیں سکتے جس طرح جیل خانہ کے قیدی (کو) سزا کی میعاد گذرنے کے بعد جیل سے رہائی ہوتی ہے نہ کہ کسی اچھے کرم سے اسی طرح سزا کی میعاد گذرنے کے بعد حیوانی قالب رہائی ہونی چاہئے اور وہ پھر جس درجہ جسمانی سے تنزل ہوا تھا اسی درجہ میں انتقال کیا جاتا ہے حیوانی قالب کے ثواب اعمال سے نہیں۔ (ثبوت تناسخ ص ٩٨۔ ١٩٧) یہ ہے آریوں کا دعویٰ جس پر آیات مندرجہ ذیل کو مسلمانوں کے الزام کی غرض سے پیش کیا کرتے ہیں۔ ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت فقلنا لھم کونوا قردۃ خاسئین فلما عتواعما نھوا عنہ قلنالھم کونوا قردۃ خاسئین (اعراف) قل ھل انبئکم بشر من ذلک مثوبۃ عنداللہ من لّعنہ اللہ وغضب علیہ وجعل منہم القردۃ والخنازین (مائدہ) واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظہورھم ذریتہم واشھدھم علی انفسھم الست بربکم قالوا بلی (اعراف) ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم (اعراف) نحن خلقنھم وشددنا اثرھم واذا شئنا بدلنا امثالھم تبدیلا (دھر) یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجا (انبیائ) ' فاخرج منھا انک من الضاغرین (اعراف) ( ویقولون سبعۃ وثامنھم کلبھم (کھف) کلما نضجت جلودھم بذلنھم جلودا غیرھا لیذوقوا العذاب (نسائ) کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتا (بقرہ) ببابل ھاروت و ماروت (بقرہ) , نحن قدرنا بینکم الموت وما نحن بمسبوقین (الواقعہ) ۔ وما من دابۃ فی الارض ولا طائر یّطیر بجناحیہ الا امم امثالکم . ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ پہلے مطلب بتلانے آیات قرآنی کے بغرض توضیح تناسخ متنازعہ کے معنے بیان کرنے بھی ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ تناسخ جسے ہندی میں پنرجنم اور آواگون بھی کہتے ہیں یہ ہے کہ روح بعد چھوڑنے اس جسم کے جس میں وہ اب ہے کسی ایسے جسم میں چلی جائے جو حسب دستور ماں کے پیٹ یا انڈے کے اندر تیار ہوا ہو جس کو دوسرے لفظوں میں تناسخ توالد بھی کہتے ہیں۔ یہ ہے آریوں کا دعویٰ جس پر آیات متذکرہ بالا پیش کرتے ہیں اب ہم ان آیات موصوفہ کا صاف مطلب بتلاتے ہیں۔ واضح رہے کہ بائبل کے مقامات کا جواب گو ہمارے ذمہ نہیں تاہم ہماری تقریر سے ان مقامات کا جواب بھی آجائے گا جس کے لئے دونوں فریق (آریوں اور عیسائیوں) کو ہمارا مشکور ہونا چاہیے آریوں کو تو اس لئے کہ ان کے شبہات دور ہوجائئیں گے۔ عیسائیوں کو اس لئے کہ ان کی طرف سے معترضین کو جواب دے کر ہم نے سبکدوش کیا اور ان کی طرح نہیں کیا کہ تکذیب براہین میں مسلمانوں کے مقابل تمام انبیاء علیہم السلام کو گالیاں سن کر یہ بھی آریوں کی مدح سرائی کرتے تھے (اخبار نور افشاں) پہلے جواب دینے اور مطلب بتلانے ان آیات کے یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ ہر ایک کلام کے معنی وہی صحیح ہوتے ہیں جو متکلم منشاء کے مطابق ہوں اور اگر کسی کلام کے ایسے معنی ہوں جو متکلم ان کو صحیح نہ جانتا ہو گو اپنی کھینچ تان سے ہم ان کو سیدھا بھی کرلیں حقیقت میں سیدھے نہیں ہوں گے کیونکہ متکلم جن معنی سے انکاری ہے وہ غلط ہیں غالباً یہ اصول سب اہل زبان کو پسند ہوگا !۔ پس بعد اس تمہید کے اجمالی جواب ان آیات کا یہ ہے کہ چونکہ متکلم قرآن (یا یوں کہیے کہ اللہ) کو تناسخ کا انکار ہے کیونکہ اس نے جزا سزا کا جو طریق بتلایا ہے کسی سے مخفی نہیں متکلم قرآن کتے بلے کی جوں کو ہرگز سزا نہیں بتلاتا بلکہ نالائقوں اور مجرموں کے لئے وہ جہنم کا راستہ کھولتا ہے تو پس آپ (یا منصف مزاج آپ کے بھائی) سمجھ سکتے ہیں کہ جس متکلم نے تناسخ سے صاف اور واضح الفاظ میں انکار کیا ہو اسی کے کلام سے تناسخ کا ثبوت کہاں تک ریت کے تیل اور دم دار آدمی اور سینگدار گدھے کے مشابہ ہوگا۔ اب تفصیلی جواب بھی سنیئے پہلی دوسری اور تیسری آیت کا مطلب بالکل واضح ہے (اگر ان کے ظاہری معنی بھی لئے جاویں) کہ بعض نالائقوں کی شکل کو اللہ نے اسی زندگی میں آدمی سے بندر کی شکل میں مبدل کردیا۔ اس واقعہ کو تناسخ سے کوئی علاقہ نہیں تناسخ تو یہ ہے کہ روح بعد چھوڑنے اس بدن کے کسی ایسے بدن میں جو موافق قاعدہ توالد ماں کے پیٹ یا انڈے کے اندر تیار ہوا ہو داخل ہوجیسے ہم نے پہلے تفصیل کی ہے ہاں اگر اس کو بھی آریہ تناسخ کہتے ہیں تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ چوتھی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ابتدائے پیدائش میں تمام بنی آدم کی روحوں کو موجود کر کے اپنی ربوہیت کا اقرار کرایا اور اس اقرار کو ان کی طبعیت میں و دیعت کردیا یہی وجہ ہے کہ اگر آدمی کو بدصحبت نہ ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا قائل ہوتا ہے بھلا اس کو تناسخ سے کیا علاقہ؟ پانچویں آیت کا مطلب بھی صرف اتنا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مرتے ہیں چونکہ زندگی کی اصل غرض جو نجات ہے ان کو حاصل ہوچکی ہے اس لئے ان کو مردہ نہ سمجھنا چاہیے۔ بلکہ وہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں بھلا اسے تناسخ سے کیا تعلق۔ چھٹی آیت کا مطلب بھی صرف اتنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کافروں کو (جو قیامت کے ہونے سے منکر ہیں کہ اللہ اتنی بڑی مخلوق کو کیونکر جمع کرے گا) پیدا کیا ہے۔ اور جب چاہیں گے ان کے تبدیل اشکال کردیں گے اور مٹی میں ملاویں گے اور پھر اسی سے اٹھائیں گے اس کو بھی تناسخ سے کیا تعلق۔ ساتویں آیت کا مطلب بھی بالکل واضح ہے بلکہ مکذّب کے سارے تانے بانے کو توڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس دن قیامت کے لئے پکار اور آواز کی جائے گی اس دن تم لوگ جماعت در جماعت ہو کر سب حاضر ہوجائو گے اسے بھی تناسخ سے کیا مطلب معلوم ہوا کہ قرآن شریف نے جزا و سزا کے لیے روز قیامت مقرر کیا ہے نہ کہ کتوں اور سوروں کی جونیں۔ آٹھویں آیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ شیطان نے جب نافرمانی کی تو اسے حکم ہوا کہ تو اس جگہ سے نکل جا کیونکہ تو بوجہ اپنی بدکاری کے ذلیل ہوچکا ہے اسے بھی تناسخ سے کیا علاقہ۔ نویں آیت کا مطلب بھی اصحاب کہف کا قصہ ہے کہ چند لوگ بوجہ اپنی دین داری اور توحید باری کے مخلوق سے تنگ آکر ایک پہاڑ کی غار میں جا چھپے تھے جب وہ چلے تو ان کے ساتھ ایک کتا بھی چلا پھر ان کی تعداد میں اہل کتاب باہم مختلف تھے ان کی بابت اللہ فرماتا ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ وہ جوان دین دار سات تھے اور کتا ان میں آٹھواں۔ اسے بھلا تناسخ سے کیا مطلب۔ دسویں آیت بھی بالکل واضح ہے اور تناسخ کی جڑ کاٹ رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب کافروں اور مکذبوں کو آگ جلا دے گی تو ان کے جلے ہوئے چمڑوں کے بجائے ان کو اچھاچمڑا دیا جاوے گا تاکہ پھر جلیں اس سے تو تناسخ بالکل ہی اکھڑ گیا کیونکہ اللہ نے جزا سزا کے لئے کتے بلوں کی جونوں کو تجویز نہیں کیا بلکہ روز قیامت کو جزا سزا کا دن مقرر کیا۔ گیا رھویں آیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ تم اسے مشرکو ! اور ناشکر ! (دہریو !) اللہ سے کس طرح منکر ہوتے ہو حالانکہ تم پہلے بے جان (یعنی مٹی) تھے پھر تم کو اللہ نے پیدا کیا اسے بھی تناسخ سے کیا تعلق۔ اگر اموات کے لفظ پر شبہ ہو تو یہ لفظ قرآن میں خشک زمین پر بھی آیا ہے دیکھو فَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا اموات کے معنی بے جان کے ہیں چنانچہ دوسری آیت پیدائش انسانی یوں بیان کرتی ہے اَلَمْ نَخْلُقْکُمْ مِّنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍ یعنی ہم نے تم کو ذلیل پانی منی سے پیدا نہیں کیا۔ پس دونوں آیتوں کا مطلب ایک ہے جیسا کہ مشاہدہ بھی اس کا شاہد ہے کہ انسان قبل صورت موجودہ کے بصورت منی ہوتا ہے۔ بارھویں آیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ زمانہ سابق میں دو شخص ہاروت ماروت لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اس کی تفصیل تفسیر ہذا جلد اوّل میں دیکھو اسے بھی تناسخ سے کوئی علاقہ نہیں۔ تیرھویں آیت کا مطلب وہی ہے جو چھٹی آیت کا۔ پندھویں آیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ صفا مروہ دو پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کی نشانی ہیں تفصل کے لئے دیکھو تفسیر ہذا جلد اوّل اسے بھی تناسخ سے کیا تعلق چودھویں آیت البتہ قابل ذکر ہے کہ اس آیت میں مکذب نے کسی قدر جھوٹ سے بھی کام لیا ہے اصل مطلب آیت کا تو صرف اتنا ہے کہ زمین کے چرند پرند بھی تمہاری طرح جماعت در جماعت ہیں جیسے تم ایک نوع ہو وہ بھی ایک ایک نوع ہیں مگر چونکہ اتنے مطلب سے مکذب کا مقصود حاصل نہیں ہوتا تھا اس لئے اس نے اس کے ترجمہ میں (تھیں) کا لفظ زیادہ کیا اور یوں ترجمہ کردیا کہ ” امتیں تھیں مثل تمہاری“ جس سے آریہ سماج نے جانا کہ ہمارے اپدیشک بڑے ودہ دان (عالم) ہیں عربی میں بھی ایسے فاضل ہیں کہ چاہیں تو سیدھی عبارت کا الٹا ترجمہ کردیں۔ اس پر حیرانی یہ ہے کہ خود ہی فارسی ترجمہ تفسیر حسینی سے نقل کرتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ (ایشاں امتاں اند مثل شما در آفرینش و مردن و زندہ شدن) کیا کوئی اتنا فارسی دان بھی سماج میں نہیں جو اس آسان فارسی کو بھی سمجھے کہ ” اند“ کا لفظ حال کے لئے ہے یا ماضی کے لئے اصل یہ ہے کہ جب آدمی کو خوف اللہ نہ ہو تو پھر جو چاہے کرتا پھرے سچ ہے ؎ بے خدا باش ہرچہ خوا ہی کن۔ بعد جواب آیات مذکورہ کے ہمارا حق ہے کہ ہم بھی آریوں سے کچھ پوچھیں۔ آریوں کا دعویٰ جو ہم نے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے اپنے مفہوم بتلانے میں بالکل صاف اور واضح ہے کسی شرح اور حاشیہ کا محتاج نہیں مضمون صاف ہے کہ انسانی قالب روحوں کے لئے اصل ہے اور باقی حیوانی قالب بطور سزا حسب جرائم ملتے ہیں پس اگر یہی آریوں کا مذہب ہے اور بیشک یہی ہے تو ہماری طرف سے اس پر مختصر سی نظر ہے۔ (١) اوّل یہ کہ دنیا کے کل اجسام جو اجزا سے مرکب ہیں اپنی ترکیب کی وجہ سے ضرور کسی خاص وقت سے موجود ہوئے ہیں جس سے پہلے نہ تھے اس لئے کہ مرکب اپنی حالت ترکیب اجزا میں علیحدگی اجزا کی خبر دیتا ہے پس ضرور ہے کہ کسی خاص وقت سے اس کی ابتدا ہوئی ہو جو ترکیب کنندہ نے اس کے لئے مناسب سمجھی ہو پس ابتدائے آفرینش عالم میں اللہ نے روحوں کو کون سا قالب بعد ترکیب عنایت کیا تھا اگر سب کو قالب انسانی ہی دیا تھا اور قرین انصاف بھی یہی ہے کہ جب جرم نہیں تو حیوانی قالب جو روحوں کے لئے بدکاری پر ایک قسم کا قید خانہ ہے کیوں ملنے لگا جو اللہ کی قد وسیت کے برخلاف ہے پس ایسے وقت میں کہ تمام روحیں دنیا میں انسانی قالب میں ہی ہوں گی حیوانی کام کس سے لیتے ہوں گی جن کا شمار کرنا وقت ضائع کرنا ہے کون نہیں جانتا کہ دنیا کے انتظام کا مدار حیوانات پر ہے یہ سب کام جو حیوانات دے رہے ہیں (مثلا ہل چلانا‘ دودھ دینا‘ چمڑوں سے فائدہ پہونچانا) کون دیتا ہوگا اور کس سے لئے جاتے ہوں گے۔ علاوہ اس کے آریوں کے خیال کے مطابق مرد عورت کا تفرقہ بھی اعمال ہی سے ہے۔ پس ابتدائے آفرینش میں اگر سب مرد ہی ہوں گے اور غالباً یہی ہے کہ مرد ہی ہوں۔ تو حاجت بشری کا کیا طریق اگر بچہ بازی کو جائز رکھیں تو نطفہ کس طرح ٹھیرتا ہوگا اور اگر کل عورتیں تھیں تو بھی مشکل جب تک مرد کوئی نہ ہو تو توالد تناسل مشکل بلکہ عادۃً محال ہے۔ (٢) جب انسانی قالب بھوگ جونی (قید خانہ) نہیں تو پھر وہ سوال جس سے بجان آکر آپ لوگوں نے تناسخ تراشا تھا اسی طرح بحال رہا یعنی یہ کہ انسانوں کی مختلف پیدائش مختلف حالت کیا باعتبار مرض و صحت (کیا باعتبار دولت و غربت) کیوں ہے اس سوال سے بچنے کی غرض سے آپ لوگوں نے پنر جنم (پہلے اعمال) کا بدلہ مانا تھا جس انسان نے جو کچھ پہلی جون میں کیا وہی اس کو یہاں ملتا ہے اور جو کچھ یہاں کرتا ہے وہ کسی دوسری جون میں ملے گا لیکن آریہ مسافر کی مذکورہ عبارت کہہ رہی ہے کہ انسانی قالب بھوگ جونی نہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ انسانی قالب سزا کے لئے تجویز نہیں ہوا بلکہ روحوں کی اصل منزل ہے جب ہی تو آپ کی تمثیل قیدی والی صحیح ہوگی تو اب بتلائیے لنگڑا لنگڑا کیوں ہوا اور کوڑھی کوڑھی کیوں ہوا اور اندھا اندھا کیوں ہوا۔ اگر گھبرا کر کہیں کہ پچھلے اعمال کا بدلہ ہے تو غلط جب کہ انسانی جون بھوگ جونی نہیں تو اس جون میں پہلے جرموں کی سزا کیسی۔ عربی مثل بے شک سچ ہے۔ فَرَّ مِنَ الْمَطْرِ قَامَ تَحْتَ الْمِیْزَابِ۔ مینہ سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے آ کھڑا ہوا۔ (٣) اگر انسانی قالب سے روح نکل کر اپنے برئے کاموں کا پھل کسی حیوانی جون میں بھگتنے کو جاتی ہے تو چاہیے تھا کہ انسانوں کی نسبت حیوانات دن بدن ترقی پر ہوں اور انسانی پیدائش بالکل تنزل پر اس لئے کہ یہ تو ظاہر ہے دنیا کی تمام آبادی میں سے اس مسئلہ کو ماننے والے بہت ہی تھوڑے ہیں جن کو لوگ ہندو کہتے ہیں باقی سب کے سب کیا مسلمان اور کیا یہود اور کیا عیسائی کیا برہم وغیرہ اس سے منکر ہیں اسی انکار کی وجہ سے وہ بقول آپ کے اللہ کو سخت ظالم اندھا راجہ سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے یہ غضب کہ کوئی موسیٰ ( علیہ السلام) نبی کو مانتا ہے کوئی عیسیٰ ( علیہ السلام) کو کوئی سید الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (علیہ السلام) کو جن کا ماننا آریوں کے نزدیک مہاپاپ (کبیرہ گناہ) ہے پس بقول آپ کے اگر یہ لوگ بڑے بڑے نیک کام بھی کیوں نہ کریں تو بھی مجرم ہیں۔ کافر ہیں۔ پاجی ہیں۔ دشٹ ہیں وغیرہ وغیرہ کیا نہیں کیا ہیں۔ غرض سب بے ایمانیوں کی جڑ ہیں پھر اس پر طرفہ یہ کہ ان میں بھی اکثر بلکہ قریب کل کے عام طور پر اس (گوشت) خور وغیرہ وغیرہ ہیں رہے ہندو جو اس مسئلہ کے ماننے والے اور انبیاء سے منہ پھیرنے والے سو ان کی حالت بھی یہ ہے کہ عام طور پر سوائے متعدد چند آدمیوں کے (جن کا حساب ہاتھوں کی انگلیوں پر ہوسکتا ہے) سب کے سب بت پرست زانی شرابی جھوٹے دغا باز وغیرہ وغیرہ یہ بھی گئے رہی مقدس قوم آریہ سو ان میں سے بھی ایک پارٹی گوشت ! کھانے کی وجہ سے آریہ مسافر لیکھرام کے نزدیک راندہ درگاہ ہے اور شراب وغیرہ تو ان میں کچھ کم نہیں ہے پس بعد تلاش بسیار کے اگر پوترا اور برگزیدہ مخلوق اور بھلے مانس اور نیک اور برے ہی نیک ہوں تو گھاس پارٹی کے آریہ اور پرتی مذہبی سبہا کے ممبر ہوں گے جو ان سب خرابیوں اور گناہوں سے پاک صاف شاید ہوں پس وہ لوگ جن میں سوائے کسی حیوانی قالب میں پوری نہ کرلیں۔ پس تمام دنیا کی آبادی کا اللہ حافظ حالانکہ مردم شماری دن بدن ترقی پذیر ہے بالخصوص یورپ میں اور خاص کر انگلینڈ میں جہاں (بقول آریہ) تمام ہی حیوانی جون کے لائق ہیں پس ثابت ہوا کہ مسئلہ تناسخ اپنے اثرات کے لحاظ سے صحیح نہیں۔ (فتدبر) (٤) قاعدہ کی بات ہے کہ جس مجرم کو سزا دے کر اس کی اصلی حالت کی طرف پھیرنا ہو اس کو اس سزا کا علم بھی ہونا چاہیے کہ یہ سزا مجھ کو فلاں گناہ کے عوض میں ملی ہے تاکہ آئندہ کو اس گناہ سے بچے۔ پس اگر حیوانی قالب سزا کے لئے ہے تو حیوانوں کو بھی اس جرم کی خبر ہونی چاہیے کہ فلاں جرم کی پاداش میں مجھے سزا ملی ہے تاکہ بعد پورا کرنے اس سزا کے انسانی قالب میں آکر ویسے جرم نہ کرے لیکن برعکس اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی آریہ کو خبر نہیں کہ پہلے وہ کس حیوان (کتے۔ بلے۔ گھوڑے۔ بیل) کی جون میں تھا اور کس جرم کی سزا کا بدلہ تھا۔ پس جب اللہ کے انصاف کو اس تفاوت مراتب کی وجہ سے بچاتے ہو تو اس سراسر ظلم کی کوئی صورت تدارک نہیں کہ مجرم کو بے خبری میں سزا دینا اور اس کو خبر نہ ہونا کہ کس جرم کے عوض میں یہ سزا ملی تھی اور بعد بھگتنے سزا کی اصل حالت میں بھی اس سے بے خبری (واہ رے انصاف)؟ (٥) اگر انسان بداعمالی کی سزا بھگت کر اپنی اصلی حالت کی طرف ہی آتا ہے تو بے چارے بھنگی۔ اندھے۔ کوڑھی۔ جذامی۔ سائل۔ گدا۔ فاقہ پر فاقہ اٹھانے والے کیا ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے اور ہمیشہ سے اسی حالت میں ہیں کیونکہ بقول آپ کے جس درجہ جسمانی سے تنزل ہوا تھا اسی درجہ میں انتقال کیا جاتا ہے تو کیا ان معذوروں کی روحوں نے کوئی تمسک لکھ دیا ہوا ہے کہ ہمیں یہی حالت پسند ہے اور کہہ دیا ہے اور ہوں گے تیری محفل میں الجھنے والے حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے (٦) اگر حیوانی قالب بھوگ جونی اور جرموں کے لئے سزا خانہ ہے تو آپ لوگوں کو مسلمانوں اور دیگر اقوام گوشت خوروں کا شکر گذار ہونا چاہیے جو جانوروں کو ذبح کر کے بہتیرے آریوں کے بھائی بندوں کی نجات کراتے ہیں یا کرانے کے سبب ہیں۔ (آریوں کی دو پارٹیاں ہیں ایک گوشت خوری کو جائز بتلاتی ہیں دوسری حرام مصنف ثبوت تناسخ پچھلی پارٹی سے ہے پہلی کا نام ماس پارٹی دوسری کا گھاس پارٹی ہے۔ منہ) (٧) اگر قالب انسانی روحوں کے لئے اصل ہے اور آپ لوگوں کا یہ بھی اصول ہے کہ روح کی خواہش ترقی علم کی طبعی اور اصل ہے اسی وجہ سے وہ باوجود قدیم ہونے کے اللہ کے قابو میں آئی تاکہ اس سے جسم لے کر اپنے معلومات وسیع کرے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بہت سے انسان بالخصوص برہمن جو ہندئوں میں بڑی اوّل درجہ کی شریف قوم ہے ترقی علم سے محروم ہیں اگر اس قالب انسانی میں روح اپنے اصلی تقاضا کو پورا نہ کرے گی تو کون سے قالب میں کرے گی حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت لوگوں کو علاوہ دنیاوی موانع کے قدرتی موانع بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً آنکھ سے اندھا ہونا یا کان سے بہرہ ہونا کسی ایسے نادار کے گھر میں پیدا ہونا جہاں بجز پیٹ پالنے کے (وہ بھی بھیک مانگنے اور پائخانہ اوٹھانے سے) کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ (٨) اگر انسانی قالب اصلی ہے اور جس قالب سے انتقال ہوتا ہے اسی قالب میں روح آتی ہے تو نابالغ بچے کیا اسی طرح مرتے رہیں گے اور ان کی روحیں ہمیشہ سے اسی طرح چھوٹی عمر میں بلکہ بعض ماں کے پیٹ میں ہی قالب چھوڑتی آئی ہیں اگر مذکورہ درجہ جسمانی کے معنی یہ بتلائو کہ امیری اور غریبی کی حالت مراد ہے اور تو پھر وہی سوال ہوگا کہ غریب بدمعاش بہنگڑ جو بے وجہ ناداری کے سب برے اعمال کر گذرتے ہیں یہی ان کے لئے اصلی درجہ ہے تو ان بیچاروں کی کیسی شامت آئی کہ ایک تو بوجہ ناداری اور غریبی بدافعال کرنے پر دنیاوی حاکم ان کو قید کریں اور پھر ان کی سزا میں بندر سور بھی بنیں پھر وہاں سے خلاصی پاکر بھی آویں تو حسب فتویٰ مکذب وہی ناداری اور غریبی کے قالب میں پر میشور ان کو ٹھونسے پھر اسی طرح ہمیشہ تک ان کی بری گت ہوتی رہے۔ اور اگر یہ نیک بھی ہوں تو کیا فائدہ جب کہ تھوڑے گناہ پر بھی حیوانی قالب میں قید ہونا اور وہاں سے چھوٹ کر اصلی حالت (غریبی اور محتاجی) میں آنا ہے تو کیا نتیجہ ہوگا اس سے تو بہتر ہے کہ اس بے چاری روح کو جو بقول آپ کے اللہ کی پیدائش بھی نہیں اس چند روزہ زندگی کے احسانات کے بدلہ میں (جو اس غریبی) اور محتاجی کی حالت میں اللہ نے اس پر کئے تھے اور در در بھیک منگانی تھی) ان سے دوگنے چوگنے برس قید کرلیا جاتا اور پھر ہمیشہ کے لئے اس کمبخت کو رہائی ہوتی اور اپنی کمائی سے آپ گذارہ کرتی اور ایسے اللہ کو دور سے سلام کہتی۔ سچ پوچھو تو اگر اللہ اسے چھوڑ دے تو کبھی بھی اللہ کے سامنے نہ آوے اور ایک ہی بار کے آزمانے پر اس کے بلانے پر بھی دور سے اس کو لکھ بھیجے۔ مَنْ جَرَّبَ الْمُجَرَّبَ حَلَّتَ بِہِ النَّدَامَۃَ بلکہ اور روحوں کو بھی یہ کہہ کر روکے ؎ حسینوں سے نہ مل اے دل ہمارے دیکھے بھالے ہیں نہیں ڈسنے سے رکنے کے ستم گر ناک کالے ہیں (٩) اگر انسانی قالب روحوں کے لئے اصل ہے اور حیوانی قالب قید خانہ تو بتلائیے اگر ایکہزار یا کم سے کم سو سال تک تمام مخلوق نیک کام کرے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے وہ لائق سزا ہوں تو بوجہ ان کی دین داری کے یہ تو حیوانات کے قالب میں جانے سے رہے ہاں البتہ حیوانات اپنی اپنی قید بھگت کر اصلی حالت (انسانی قالب) کی طرف آویں گے جس کی وجہ سے حیوانات میں ایک روز ایسی کمی ہوگی کہ ہمیں سواری کے لئے کوئی گھوڑا دودھ کے لئے کوئی گائے اور شہد کے لئے کوئی مکھی بھی نہ ملے گی کیا پھر ان بیچارے نیکوں کا جو کئی سالوں تک نیکی کے کاموں میں لگے رہے یہی انعام ہونا چاہیے تھا جو آرام ان کو بدکاری میں تھا گاڑی سواری کو گائے بھینس دودھ پینے کو جانور بوجھ برداری کو وہ بھی ہاتھ سے جاتے رہے بلکہ بغور دیکھیں تو کل انتظام عالم میں فرق آگیا اس وقت ان نیک بھگتوں کے منہ سے بیساختہ نہیں نکلے گا چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی (١٠) یہ تبدیل الفاظ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر حیوانی قالب بھوگ جونی ہے تو ہم فرض کرتے ہیں کہ تمام دنیا میں سو دو سال تک تمام لوگ بدکار غدار (جیسا کہ آج کل عموماً ہیں) زانی شرابی کل کے کل اسی قسم کے ہور ہیں جن میں سے کوئی بھی انسانی قالب کے لائق نہ ہو تو بتلائیے تمام دنیا کا انتظام کس طرح ہوگا جب کہ سارے ہی جیو (روح) بوجہ اپنی بدکاری کے حیوانی قالب میں چلے گئے اور ایک روز ایسا آپہونچا کہ سب کے سب حورانات ہی ہوں اور انسان ایک بھی نہ ہو تو نتیجہ اہل الراء سوچ میں۔ منہ ہماری اس تقریر سے نہ صرف مسئلہ تناسخ کا ابطال ہوا بلکہ بغور دیکھیں تو کل دیدک مت (مذہب دید) کا بطلان لازم آتا ہے کیونکہ دیدک تعلیم میں یہ تقاضا یہی نہیں کہ میری پابندی سب لوگ کریں حالانکہ دین الہٰی کا یہ تقاضا ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ (عدم تقاضائے دید) پر مفصل بحث ہماری کتاب ” الہامی کتاب“ میں مل سکتی ہے) تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں ہمیشہ اسی طرح بلا میں مبتلا رہیں گے یہ نہ ہوگا کہ کسی وقت اتفاق کرکے اللہ تعالیٰ پر حملہ کریں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا ہی زبر دست بڑی ہمت والا ہے کسی کی کیا مجال کہ اس کے سامنے چوں کرسکیں ان کے مقابل کے لوگ جن سے یہ حسد کرتے ہیں یعنی جو لوگ اللہ اور رسول کے حکموں پر دل و جان ایمان لائے ہیں اور پھر اسی کے مطابق نیک عمل بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کو موت بھی آجاتی ہے ہم (اللہ) ان کو ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی نہ صرف چند روزہ بلکہ انہیں میں ہمیشہ رہیں گے ان باغوں میں علاوہ نعماء خداوندی ان کے لئے بیویاں پاک ہوں گی جو سوا اپنے خاوندوں کے کسی کی طرف نگاہ نہ اٹھائیں گی۔ اور ہم ان کو دائمی عیش میں داخل کریں گے اگر یہ انعام حاصل کرنا چاہتے ہو تو سنو ! اللہ تم کو ایک ضروری حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں مالکوں کو جس وقت وہ تم سے طلب کریں دے دیا کرو ایسا نہ کرو کہ ان کو خود ہی ہضم کر جائو یا دیتے وقت کسی بے پرواہی سے کسی اور شخص کو دے دو جس سے ان کا حرج ہو (شان نزول :۔ (ان اللّٰہ یامرکم ان تؤدو الامنت) فتح مکہ کے زمانہ میں آپ نے کعبہ شریف میں داخل ہونا چاہا تو دربان نے چابی دینے سے انکار کیا حضرت علی (رض) نے اس سے جبراً چھین لی جب آپ کعبہ سے باہر آئے تو حضرت عباس نے چاہا کہ کعبہ کی کنجی مجھے ملے اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے مطابق حضرت علی (رض) سے کنجی لے کر اس دربان کے پاس بھیج دی تو اس نے کہا پہلے تو مجھ سے جبراً چھین لی اب کیوں دیتے ہو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہی حکم بھیجا ہے منصفانہ ارشاد سن کر وہ فوراً مسلمان ہوگیا۔ معالم۔) اور جب لوگوں میں کسی قسم کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے کیا کرو بسا اوقات تم کو انصاف سے روکنے والے ناصح مشفق بن کر ڈرائیں گے کہ فلاں صاحب بڑے رئیس ہیں گو وہ ناحق پر ہیں لیکن اگر آپ ان کے خلاف فیصلہ کریں گے تو وہ صاحب رنجیدہ ہوجائیں گے جس سے آپکا نقصان ہوگا میں آپ کو دوستانہ سمجھاتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں کہ آپ ان کے خلاف فیصلہ کسی طرح نہ کریں سو ایسے نادان دوستوں کی نصیحت پر کان نہ لگانا جو نصیحت اللہ تم کو کرتا ہے وہی خوب ہے اگر تم انصاف پر کمر بستہ رہو گے تو کوئی بھی تمہیں چاہے کتنا بڑارئیس بھی کیوں نہ ہو تکلیف نہ پہنچا سکے گا اس لئے کہ اللہ سب کی باتیں سنتا ہے اور سب کے کام دیکھتا ہے ممکن نہیں کہ جو لوگ اس کی رضا جوئی کو مقدم کریں ان کو اللہ ذلیل کرے بلکہ ہمیشہ وہی معزز رہیں گے ان کا خاتمہ بخیر وعافیت ہو اس لئے تو تمہیں حکم ہوتا ہے مسلمانو اللہ اور رسول کا کہا مانا کرو اور اپنے میں سے فرمانروائوں کی موافق شریعت تابعداری کیا کرو (شان نزول :۔ (واولی الامر منکم) حضرت اقدس نے ایک دفعہ کسی طرف فوج بھیجی اس کو حکم کیا کہ اپنے سردار کی تابعداری کرنا موقع پر پہنچ کر وہ سردار کسی وجہ سے فوج پر خفا ہوگیا حکم دیا کہ لکڑئیں بہت سی جلائو جب جل پڑیں تو بولا کہ تم جانتے ہو کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں میری تابعداری کا حکم دیا ہوا ہے وہ بولے کہ بیشک دیا ہوا ہے بولا کہ میرا حکم ہے کہ اس آگ میں کود پڑو اس پر بعض کی رائے تو مصمم ہوگئی مگر دوسروں نے ان کو سمجھایا کہ ہم تو مسلمان ہی ہوئے تھے اسی غرض سے کہ آگ سے بچیں جب مسلمان ہو کر بھی ہمیں آگ ہی نصیب ہوئی تو اسلام نے ہمیں کیا فائدہ دیا چنانچہ یہی ہوا کہ کوئی بھی اس پر جرأت نہ کرسکا جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ قصہ عرض کیا آپ نے فرمایا اگر تم اس آگ میں کود پڑتے تو ہمیشہ اسی میں رہتے اس لئے کہ کسی مخلوق کی اطاعت خالق کی بے فرمانی میں جائز نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری) یعنی امور جائزہ میں اپنے افسروں کی اطاعت کرو اور خلافت شریعت میں نہیں۔ (واولی الامر منکم) اس آیت کے معنے بالکل صاف اور واضح ہیں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماتحت اولوالامر کی اطاعت امور جائزہ میں واجب ہے اولوالامر لفظ مرکب ہے جس کے معنی صاحب امر کے ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں امیر یا حاکم کہتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں آیت موصوفہ کا شان نزول اسی طرح آیا ہے جیسا کہ ہم نے کلام شان نزول میں لکھا ہے پس اس حدیث سے اس آیت کے معنے بالکل صاف ہوگئے کہ اولوالامر سے مسلمانوں کے امیر یا حاکم مراد ہیں رہی یہ بحث کہ علماء مجتہدین کے قیاسات اور استنباطات کا اتباع واجب ہے یا نہیں یہ بحث سلف امت میں نہ تھی اس لئے کہ علماء کی عصمت کا تو کوئی بھی قائل نہیں اصول فقہ میں صاف مذکور ہے کہ مجتہد کی بات بعض دفعہ صحیح اور بعض دفعہ غلط بھی ہوجایا کرتی ہے۔ المجتہد قریصیب وقد یخطی۔ پس اگر اس کے قیاسات قرآن اور حدیث سے مستنبط ہوں گے جن کو دوسرے لفظوں میں فہم قرآن و حدیث کہنا چاہئے تو ان کے ماننے اور تسلیم کرنے سے کون مسلمان انکار کرے گا اور اگر بتقاضائے مایت اور بمقتضائے بشریت ان سے کچھ خلاف ہوگیا تو اس کے ماننے کی اسے کون ہدایت کرے گا۔ پس مولانا عبدالحق صاحب تفسیر حقانی کا فرمانا ” آج کل ایک فرقہ نیا پیدا ہوا ہے جو اپنے آپ کو غیر مقلد اور اہل حدیث سے ملقب کرتا ہے اس (قیاس) کا منکر ہے اور اس کے جواب میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں جیسے کتاب و سنت پر عمل کرنے کی تاکید اور قیاس مخالف کتاب و سنت کی برائی پائی جاتی ہے لیکن جمہور کو اس سے کب انکار ہے۔ بلکہ کتب اصول فقہ میں احناف و شوافع کے علماء علام نے تصریح کردی ہے کہ اول کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ پھر اجماع امت پھر قیاس اور جو قیاس حدیث کے برخلاف ہو اس پر عمل کرنا درست نہیں نہ وہ قالس درست ہے بلکہ امام اعظم حضرت ابوحنیفہ (رح) نے تو صحابہ کے قیاس کے مقابلہ میں بھی اپنے قیاس کو معتبر نہ سمجھا چہ جائیکہ حدیث و اجماع کے خلاف ہوا“ تفسیر مذکور جلد ٢ ص ٢٣٢۔ حیرت افزا ہے کہ کس زور و شور سے مولوی صاحب نے فرقہ غیر مقلدین اہل حدیث کا ذکر کیا اور کیسے حقارت آمیز الفاظ میں ان کا نام اللہ اللہ کر کے قلم سے نکالا مگر آخر بات نکلی تو یہ کہ ان کی دلیل کو مع دعویٰ مولانا صاحب نے تسلیم فرما لیا اور بجز ظاہری خفگی کے اندرونی اتفاق سے اطلاع بخشی قسم قنعم الوفاق یہی وجہ ہے کہ ہم نے تفسیر ہذا میں ان مسائل پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی مبارک ہیں وہ لوگ جو اس دعویٰ پر (کہ غیر نبی کا قول و فعل نبی کے قول و فعل کے مقابل سند نہیں) عملی ثبوت دکھاویں ورنہ زبانی لفاظی پر جو اللہ تعالیٰ نے خفگی فرمائی ہے کسی سے مخفی نہیں صاف فرمایا ہے۔ لم تقولون مالا تفعلون کبر مقتا عنداللہ ان تقولوامالا تفعلون کیوں وہ باتیں منہ پر لاتے ہو جو کر کے نہیں دکھاتے یہ تو اللہ کے ہاں بڑے غضب کی بات ہے کہ کہے پر عمل نہ کرو۔ (منہ) پھر اگر کسی معاملے میں تم افراد میں جھگڑا پڑے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف پھیرو یعنی حاکموں کے سامنے عدالت میں قانونی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اللہ اور رسول کا حکم پیش کرنا ہوگا پھر اگر حاکم تمہارے منشا اور مفہوم کے خلاف آیت یا حدیث کا مضمون سمجھ کر فیصلہ کر دے تو بطریق انتظام اسے تسلیم کیا کرو بطریق اعتقاد اسے غلط سمجھنے کا تم کو اختیار ہے اگر تم اللہ کو اپنا مالک مانتے ہو اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اسی طرح کیے جائو یہ کام ہر طرح سے بہتر ہے اور انجام کار بھی اچھا ہے ظاہر باطن میں احکام شریعت کو تسلیم کرو نہ کہ منا فقوں کی طرح ظاہر ظاہر۔