وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور اس رسول کی بعثت دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے اور وہ اللہ بڑا زبردست بڑی حکمت والا ہے
ان موجودہ لوگوں کے علاوہ اور پچھلے لوگ جو ابھی تک ان کو نہیں ملے ان کے لئے بھی اللہ نے یہی رسول بھیجا ہے یعنی بعد اختتام حیوۃ محمدیہ قیامت تک جو لوگ ہوں گے ان سب کے لئے یہی نبوت محمدیہ راہنما ہوگی۔ اور وہ (اللہ) ہر بات پر غالب حکمت والا ہے۔ واخرین منھم۔ اس آیت پر بھی ہمارے پنجابی مسیح نے قبضہ کیا ہے کہتے ہیں کہ اخرین منہم کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے زمانے میں ایک مسیح موعود آئے گا وہ دراصل ظل محمدی (ﷺ) ہوگا۔ اور وہ میں (مرزا) ہوں چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ اس بارے میں کچھ تو حاشیہ سابقہ متعلقہ لفظ احمد میں نقل ہوئے ہیں کچھ اس جگہ نقل ہوتے ہیں مرزا صاحب کا قول ہے آخری زمانہ کا آدمی درحقیقت ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور میری نسبت اس کی جناب کے ساتھ استاد اور شاگردکی نسبت ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ واخرین منھم لما یلحقوا بہم اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے پس آخرین کے لفظ میں فکر کرو اور اللہ نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم کے نطف اور جود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنے آخرین منہم کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھ کو نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے۔ (تریاق القلوب صفحہ ١٧٠۔ ١٧١) اس دعوی کی مزید تشریح مرزا صاحب نے ایک اور مقام پر خوب کی ہے جو قابل وید وشنید ہے۔ فرماتے ہیں۔ اس وقت حسب منطوق آیت واخرین منھم لما لحقوا بہم اور نیز حسب منطوق قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تاء اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوئوں اور مسلمانوں کی ایک زبان مشترک ہوگئی تھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہﷺہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کیلئے بدل وجان سرگرم ہیں آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپکا دعوی ہے۔ میں تمام کافہ ناس کیلئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتے ہیں قرآنی تبلیغ کرسکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہونچا سکتے ہیں اور تمام حجت کیلئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روحانتا نے جو ابدیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتاہوں مگر میں ملک ہند میں آئونگا کیونکہ جوش مذاہب واجتماع جمیع ادیان اور مقابلہ جمیع ملل ونحل اور امن و آزادی اسی جگہ ہے اور نیز آدم (علیہ السلام) اسی جگہ نازل ہوا تھا پس ختم دور زمانہ کیوقت بھی وہ آدم کے رنگ میں آتا ہے اسی ملک میں اسکو آنا چاہئے تا آخر اور اول کا ایک ہی جگہ اجتماع ہو کر دائرہ پورا ہوجائے اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسب آیت واخرین منھم دوبارہ تشریف لانا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روحانیت نے ایک ایسے شخص (مرزا) کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ اس کا ظہور بعینہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ظہور تھا۔ (تریاق القوب ١٠١۔) مطلب ان سب کا ایک ہی ہے کہ بقول مرزا صاحب آئت مذکورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت جو ذکر ہے کہ آپکو اللہ نے قریش میں مبعوث کیا نیز پچھلے لوگوں میں مبعوث فرمایا اس سے مرادو بعثتیں ہیں ایک بعثت اصلی دوسری ظلی ظلی سے مراد عکس محمدی ہے اور وہ میں (مرزا) ہوں اسی طرح آپنے جملہ کمالات محمدیہ کو اپنے حق میں کرنا چاہا جو حدیث شریف میں بطور مثال کے آئے ہیں۔ (حدیث شریف کے الفاظ مع ترجمہ نقل ہیں) قال رسول اللہ ﷺمثلی ومثل الانبیاء کمثل قصر احسن بنیانہ ترک منہ موضع لبنۃ فطاف بہ النظار یتعجبون من حسن بنیانہ الاموضع تلک اللبنۃ فکنت انا سددت موضع اللبنۃ ختم بی اللبنیان وختم بی الرسل فانا اللبنۃ (بخاری مسلم) مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میری اور انبیاء کی مثال ایک بڑے شاندار مکان کی ہے جس کی عمارت بہت اچھی بنائی گئی مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی جس کو ناظرین دیکھتے اور اس کی عمدگی عمارت پر تعجب کرتے مگر اس ایک اینٹ کی وجہ سے (دل تنگ ہوتے) بس میں نے وہ اینٹ کی جگہ بند کردی اور میرے ساتھ رسول ختم کئے گئے ہیں میں ہی وہ آخری اینٹ ہوں۔ اس حدیث کا مطب یہ ہے کہ آنحضرت نے سلسلہ نبوت کو ایک بڑے شاندار مکان سے تشبیہ دیکر فرمایا کہ مکان نبوت میں ایک کونا خالی تھا میں اس کونے کی آخری اینٹ ہوں۔ ناظرین : اس حدیث کو یاد رکھیں اور مرزا صاحب کا دعوی سنیں کہ شاگرد ہو کر استاد کی مسند پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں۔ کان خالیا موضع لبنۃ اعنی المنعم علیہ من ھذہ العمارۃ فاراد اللہ ان یتم البناء ویکمل البناء باللبنۃ الاخیرۃ فانا تلک اللبنۃ (کتاب خطبہ الہامیہ صـــــــ) اس عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی یعنی منعم علیہم پس اللہ نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچا دے (ترجمہ خطبہ الہامیہ مترجمہ مصنف) اس عبارت میں اس حدیث کیطرف اشارہ ہے جس کے الفاظ ناظرین کے سامنے ہیں کتنی دلیری ہے کہ اپنے حق میں وہی الفاظ لکھے ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے اپنے حق میں فرمائے ہیں یعنی (لبنہ) آخری اینٹ۔ ثابت ہوا کہ مرزا صاحب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شاگردی کا دعوی کر کے درحقیقت حضور کی مسند پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ورنہ شاگرد کا حق یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ استاد کی مسند پر شاگرد قبضہ کرے یا للعجب وضیعۃ الادب۔ مرزا صاحب کی بروزیت محمدیہ : ہمارے نزدیک بلکہ ہمارے خیال میں ہر ایک مسلمان بلکہ ہر ایک انسان کے نزدیک مذکورہ دعوی مرزائیہ اس قابل نہیں کہ اسکی تردید کرنے پر توجہ کیجائے اہل منطق کا قول ہے کہ بعض دعوے ایسے ہوتے ہیں کہ انکی دلیل خود ان کے اندر ہوتی ہے ایسے دعاوی کو اہل منطق کہا کرتے ہیں قضا یا قیا ساتہا معھا۔ مرزا صاحب کا یہ دعوی بھی اس قسم کا ہے کہ اس کے بطلان کی دلیل خود اس کے اندر ہے تاہم جی چاہتا ہے کہ اپنے ناظرین کو ایک معقول امر پر مطلع کریں۔ دنیا کی تاریخ اور اہل دنیا متفق ہیں۔ کہ محمد اول (ﷺ) کے اوصاف کمال میں سے ایک کھلا وصف کمال یہ بھی ہے کہ حضور نے اپنی زندگی میں اپنے اتباع کو تختہ ذلت سے اٹھا کر تخت عزت پر بٹھا دیا دنیا جانتی ہے کہ حضور انتقال فرماتے وقت خود بھی صاحب تاج وتخت تھے اور امت کو بھی تخت سلطنت پر رونق افروز چھوڑ گئے۔ اب ہم محمد ثانی (قادیانی) کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے امت مسلمہ کو عموماً اور امت مرزائیہ کو خصوصاً کس حالت پر چھوڑا؟ اس سوال کے جواب کیلئے کہیں دور جانے آنے کی ضرورت نہیں اتنا ہی کافی ہے کہ مرزا صاحب قادیانی اپنی ساری زندگی میں انگریزوں کی رعیت رہے یہانتک کہ ایک ادنی درجہ کے افسر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کے حکم سے آپکو اقرار کرنا پڑا کہ (١) میں (مرزا غلام احمد قادیانی) ایسی پیشگوئی شائع کرنے سے پرہیز کرونگا جس کے یہ معنے ہوں یا ایسے معنے خیال کئے جا سکیں کہ کسی شخص کو ذلت پہنچے گی یا وہ مورد عتاب الٰہی ہوگا۔ (٢) اللہ کے پاس ایسی اپیل کرنے سے بھی اجتناب کرونگا کہ وہ کسی شخص کو ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان ظاہر کرنے سے کہ وہ مورد عتاب الٰہی ہے یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ (٣) میں کسی چیز کو الہام جتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہونگا جس کا یہ منشاہو یا ایسا منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص (مسلمان ہو خواہ ہندو یا عیسائی) ذلت اٹھا ئیگا یا مورد عتاب آلٰہی ہوگا وغیرہ۔ ٢٤۔ فروری ١٨٩٩ء اس کے علاوہ ساری عمر محمد ثانی (مرزا صاحب قادیانی) انگریروں کی ماتحتی میں انکی حکومت کی خدمت کرتے رہے یہانتک کہ آپکے بعد صاحبزادے میاں محمود احمد صاحب نے ماہ فروری ١٩٢٢میں شاہزادہ ویلز کی آمد پر ایک کتاب تحفہ شاہزادہ ویلز لکھی جس میں اپنے والد مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی زندگی کے حالات اور دعاوی اور برکات لکھ کر یہ لکھا کہ۔ پھر اے شاہزادہ ! کس طرح اللہ تعالیٰ نے عین مایوسی اور ناامیدی کے وقت مسیح مودعود (مرزا صاحب) کی دعا سنکر برطانیہ کی فتح کا سامان پیدا کردیا (تحفہ شاہزادہ ویلز ١٣۔) اس عبارت سے صاف پایا جاتا ہے کہ مرزا حاحب کا خاتمہ زندگی انگریزی سلطنت کی خدمت گزاری میں ہوا ہے حتی کہ مرنے کے بعد بھی غیر مسلم حکومت کی خدمت کر رہے ہیں کیونکہ آپکا انتقال ١٩٠٨ھ میں ہوا تھا اور جنگ عظیم میں برطانیہ کی فتح ١٩١٨ء میں ہوئی تھی۔ گمان غالب ہے کہ اسوقت مرزا صاحب قادیانی زندہ ہوتے تو میدان جنگ میں جانے کی درخواست کرتے اس کا ثبوت اس سے ہوتا ہے اسی فروری ١٩٢٢ء کو قادیانی جماعت نے بحکم خلیفہ قادیانی شاہزادہ ویلز کو اڈریس دیا اس میں امت احمدیہ (مرزائیہ) کی خدمات کے ذکر میں شہزادہ ویلز کو مخاطب کر کے عرض کیا۔ حضور ملک معظم کی فرمانبرداری ہمارے لئے ایک مذہبی فرض ہے اس میں سیاسی حقوق کے ملنے یا نہ ملنے کا کچھ دخل نہیں جب تک ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے ہم اپنی ہر ایک چیز تاج برطانیہ پر نثار کرنے کیلئے تیار ہیں اور لوگوں کی دشمنی اور عداوت ہمیں اس سے باز نہی رکھ سکتی ہم نے بارہا سخت سے سخت سوشل بائیکاٹ کی تکالیف برداشت کر کے اس امر کو ثابت کردیا ہے اور اگر ہزار ہا دفعہ پھر ایسا ہی موقع پیش آئے تو پھر ثابت کرنے کیلئے تیار ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ بوقت ضرورت ہمیں اس دعوی کے ثابت کرنے کی اس سے بھی زیادہ توفیق دیگا جیسا کہ وہ پہلے اپنے فضل سے دیتا رہا ہے (تحفہ شاہزادہ ویلز ٩٨۔ ١٩) اس بیان میں ہمارا مقصود یہ نہیں کہ مرزا صاحب انگریزی حکومت کی خدمت کیوں کرتے رہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ محمد ثانی ہونے کی حیثیت میں ان کا جو کام تھا وہ ان سے نہیں ہوا اس لئے محمد ثانی ہونے کا دعوی انکا غلط ہے کیونکہ محمد اول (ﷺ) نے اپنی بعثت اولیٰ میں مسلمان قوم کو تاج وتخت کا مالک بنایا تھا مرزا صاحب چونکہ بروزی طور پر محمد ثانی ہونے کے مدعی تھے۔ اس لئے ان کا کام محمد اول کے کام سے مشابہ ہونا چاہیئے تھا مگر واقع میں نہوا ؎ اے مرغ سحر عشق زپروانہ بیاموز کاں سوختہ راجان شدو آواز نآمد۔