لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا يَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِن قُوتِلُوا لَا يَنصُرُونَهُمْ وَلَئِن نَّصَرُوهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ
اگر وہ نکالے گئے تو یہ لوگ ان کے ساتھ ہرگز نہیں نکلیں گے اور ان سے جنگ چھڑ گئی تو یہ ان کی مدد بھی نہیں کریں گے اور بالفرض ان کی مدد کریں بھی تو پیٹھ دے کر بھاگ جائیں گے پھر کہیں سے کوئی مدد نہ پائیں گے
اگر وہ اہل کتاب بوجہ بغاوت یا سرکشی جلاوطن کئے گئے تو یہ لوگ ہرگز ان کے ساتھ نہ نکلیں گے اور اگر ان سے لڑائی ہو پڑی تو یہ ان کی مدد نہ کریں گے کیونکہ ان کا اصول ہمدردی نہیں بلکہ وہ ہے جو مثل کے طور پر مشہور ہے کہ ہندو ہو یا مسلمان ؟ جس میں رعائت ہو۔ اس لئے ان کے وعدے اور ہمدردیاں سب خود غرضی پر مبنی ہیں اور اس شعر کی مصداق ہیں۔ حلف عدو سے قسم مجھ سے کھائی جاتی ہے الگ ہر ایک سے چاہت بنائی جاتی ہے اور اگر بالفرض انہوں نے ان اہل کتاب یہودونصاری کی کچھ مدد کی بھی تو الٰہی مدد کے سامنے تم کو پیٹھ دکھاجائیں گے پھر ان کو کسی طرح سے مدد نہیں پہنچے گی