وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے د یا کرو۔ ہاں ! اگر وہ خود اس کا کچھ حصہ خوش دلی سے چھوڑ دیں تو اسے خوشگواری اور مزے سے کھالو۔
(4۔10) اور عورتوں کے مہر خوشی سے ان کو دیا کرو پھر اگر وہ بخوشی خاطر اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اس کو مزے سے بلا کھٹکا قبول کرلیا کرو اور بے وقوفوں عورتوں اور بچوں کو اپنا سارا مال جس کو اللہ نے تمہارا گزارا بنا رکھا ہے حوالہ نہ کردیا کرو ان میں سے ان کو کھلاتے پہناتے رہو اگر وہ زیادہ ہی تنگ کریں اور تم ان کو بوجہ نادانی اور کم فہمی کے دینا مناسب نہ جانو تو ان پر سختی نہ کرو بلکہ بھلی بات کہتے رہو کہ تمہارا ہی مال ہے میں تو اس کو تمہارے ہی لئے کماتاہوں وغیرہ وغیرہ اور جوانی تک پہنچنے تک گاہے بگاہے یتیموں کا امتحان کرلیا کرو پھر اگر ان میں کچھ ہوشیاری اور لیاقت پائو تو ان کے مال جو تمہارے پاس امانت رکھے ہوں دے دیا کرو شان نزول :۔ پہلی آیت کے موافق صحابہ (رض) نے یتیموں کا مال واپس کرنے کا وقت دریافت کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم اور ان کی شادی میں فضول خرچی سے اور ان کے بڑا ہونے کے ڈر سے پہلے ہی جلدی سے نہ کھا جا یا کرو کہ بڑے ہو کر تقاضا نہ کریں بلکہ اس مال کو بذریعہ تجارت بڑھائو جو آمین غنی ہو وہ اس کام کا عوض لینے سے پرہیز کرے اور جو فقیر ہو وہ اپنی محنت کا عوض دستور کے موافق ان کے مال سے لے لیا کرے پھر جب ان کو دینے لگو تو ان کے سامنے گوا کرلیا کرو با وجود اس کے اگر کچھ خیانت کرو گے تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی حساب لینے والا بس ہے ایسا بھی نہ کرو کہ یتیموں کے ماں باپ مرتے وقت ناحق کی فضول خرچیوں میں ان کا روپیہ اس خیال سے اڑا جائو کہ ہنوز یتیموں کے قبضہ میں نہیں آیا اس لئے ان کا نہیں ہے کیونکہ جو کچھ ماں باپ قریبی چھوڑ جاتے ہیں اس میں لڑکوں کا حصہ ہوتا ہے ) شان نزول :۔ (لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ) ایک شخص انصاریوں میں سے فوت ہوگیا ایک بوہی اور تین لڑکئیں چھوڑ گیا اس کا سب مال حسب دستور مشرکین عرب اس کے چچا زاد بھائیوں نے سمیٹ لیا اس کی بیوی اور لڑکیوں کو کچھ نہ دیا اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ ( گو ان کے قبضے میں بالفعل نہ ہو اور ایسا ہی ماں باپ اور قریبیوں کے چھوڑے ہوئے مال میں لڑکیوں کا بھی حصہ ہے۔ ) راقم کہتا ہے لڑکیوں کو حصہ دینا جیسا کہ مشرکین عرب پر دشوار تھا۔ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زائد زمانہ حال کے مسلمانوں پر ہے ان سب آفتوں کی جڑحب دنیا ہے جس کی بابت حب الدنیا راس کن خطیئۃ ارشاد وارد ہے۔ گو ان کے قبضے میں نہیں ہے اور نہ بوجہ اپنے ضعف عقل کے قبضہ کرسکتی ہیں خواوہ مال کم ہو یا زیادہ موافق شریعت کے جو آگے آتا ہے حصہ مقرر لیں گے اور جب بانٹنے کے وقت قریبی رشتہ دار مفلس (جن کا حصہ اس مال میں نہیں) اور غریب نادار یتیم بچے اور شہر کے مساکین آجاویں تو ان کو بھی اس مال میں سے احساناً کچھ دیا کرو وہ بھی مردہ کے لئے دعا گو ہونگے اور بغرض تسلّی ان کو اچھی بات کہا کرو وہاں ایسا بھی نہ کرو کہ ان سائلوں کو یتیم سمجھ کر ایسے خوش کرنے لگ جائو کہ تمام مال یا اس میں سے بڑا حصہ ان کو دے دو کہ جس سے ان یتیموں کا جو اصلی مالک ہیں حرج ہو اس کام سے پرہیز کرو خاص کر جو لوگ اپنی کمزور اور نابالغ اولاد کے پیچھے رہنے میں خوف کرتے ہیں۔ کہ کوئی ان کا مال ضائع نہ کرے۔ وہ تو اس معاملہ میں دل سے خوف کرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ کہ ایسے کام کیوں کرتے ہیں۔ جس سے یتیموں کا حرج ہو اور اگر زیادہ ہی سائل پیچھے پڑیں تو ان کے جواب میں معقول بات کہیں صاحب ہمارا اس میں بس نہیں یہ مال یتیموں کا ہے ہم تو صرف تقسیم کرنے کا حق رکھتے ہیں جس قدر ہمارے اختیار میں تھا ہم نے بمشورہ دیگر ورثا تم کو دے دیا زیادہ ہماری وسعت میں نہیں اگر یتیموں کا مال بے جا خرچ کرو گے گو کسی دوسرے کو دو اللہ کے ہاں اس کا گناہ تمہارے ہی ذمہ ہوگا پھر یاد رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال بے جا طور سے کھاتے ہیں وہ جان لیں کہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں جس کا انجام یہ ہوگا کہ عنقریب وہ جہنم میں جائیں گے