سورة ق - آیت 1

ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

قسم ہے قرآن مجید کی (کہ آپ ہمارے رسول ہیں) (١۔ ٢)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔15) میں اللہ قادر قیوم ہوں اے نبی ! مجھے اپنے کلام پاک قرآن مجید کی قسم ہے کہ تو میرا رسول ہے اس لئے جو کچھ تو ان کو کہتا اور سناتا ہے وہ سچ ہے آئندہ کی بابت جو تو ان کو بتاتا ہے۔ وہ ہو کر رہے گا۔ مگر ان مشرکین عرب کو تعجب اس بات سے ہے کہ ان میں سے ایک شخص اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ان کے پاس کیوں آیا۔ ان کے خیال میں یہ عہدہ کسی فرشتے یا کسی دولتمند ذی عزت آدمی کو ملنا چاہیے تھا مگر آیا تو ایک آدمی۔ آدمی بھی وہ جس کے پاس ظاہری مال ودولت کچھ نہیں۔ پس کافر کہتے ہیں یہ عجیب تعلیم ہے کہ مر کر پھر زندہ ہوں گے۔ بھلا ہم مر کر جب مٹی ہوجائیں گے تو پھر جی اٹھیں گے؟ یہ دوبارہ زندگی تو عقل سے بعید ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جب ہم مٹی ہو کر مٹی میں مل گئے ہمارا گوشت رہا نہ ہڈی۔ نہ رگ نہ پٹھا۔ ایسی حالت میں ہم کیسے دوبارہ جئیں گے (مشرکین عرب کو مسئلہ توحید میں تو مشکلات تھیں۔ مگر مسئلہ قیامت اور حشر اجسام میں توحید سے بھی زیادہ مشکلات ان کو سوجہتی تھیں ان کے جواب میں یہ سورۃ نازل ہوئی (منہ) سنو ! ان کے جتنے کچھ جوڑ جاڑ ہیں اور جتنی کچھ زمین ان سے کھا کر کم کر رہی ہے ہم سب کو جانتے ہیں ہر چیز کا ذرہ ذرہ ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک دفتر محفوظ ہے جو ہماری ذات خاص میں ہے یعنی لوح محفوظ اور ہمارا علم اس سے کوئی چیز باہر نہیں۔ دنیا کے سب علوم اور سب کتابیں اس کی فرع ہیں۔ مگر ان کی تو حالت یہ ہے کہ حق بات اور سچی تعلیم جب ان کے پاس آئی تو انہوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ پس یہ لوگ ایک بے بنیاد بات پر جمے ہوئے ہیں یہ کہ اللہ کے ساتھ کچھ شریک ہیں جو اس کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں ان کو اگر کسی مسئلہ کا سمجھنا مقصود ہو تو آثار قدرت دیکھیں ان سے نتائج اخذ کریں۔ کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح اس کو بنایا۔ پھر ہم نے اس کو ستاروں سے سجایا اور اس میں کسی طرح کی درز یا شگاف نہیں ہے اور دیکھو زمین کو ہم نے پھالو دیا۔ اتنی وسیع ہے کہ اس کی پیمائش نہیں ہوسکتی۔ اور اس پر کئی ایک بھاری بھاری پہاڑ پیدا کر دئیے اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں پیدا کیں۔ ہری بھری کھیتی ایک طرف ہے تو لہلہاتے سبز باغ ایک طرف۔ چشم بینا کی بینائی کے لئے اور اللہ کی طرف جھکنے والے بندوں کی نصیحت کے لئے کیونکہ وہ ایک ایک پتے سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے ؎ برگ درختان سبز درنظر ہوشیار ہر ورقے دفتر یست معرفت کردگار اور سنو ! ہم اللہ اوپر سے بابرکت پانی اتارتے ہیں یعنی بارش پھر اس پانی کے ساتھ باغ اگاتے ہیں اور کھیت میں دانے پیدا کرتے ہیں اور لمبی کھجوریں پیدا کرتے ہیں جن کے گابھے تہ بتہ ہوتے ہیں یہ سب سامان بندوں کو رزق دینے کے لئے ہے۔ ورنہ ان کا فائدہ ہم کو کچھ نہیں پہنچتا اور سنو ! ہم اس پانی کے ساتھ خشک پڑی ہوئی زمین کو زندہ اور تازہ کردیتے ہیں جس سے زمین میں حالت دگرگوں ہوجاتی ہے۔ اسی طرح قیامت کے روز قبروں سے مردوں کا خروج ہوگا۔ عرب کے مشرک قیامت کا ذکر سنتے ہی سر اٹھا کر تاکنے لگ جاتے ہیں کہ ہیں ؟ قیامت کیسے۔ یہ تو بالکل جھوٹ ہے پس تم اس سے دل برداشتہ نہ ہو۔ بلکہ سنو ! ان سے پہلے نوح کی قوم نے مقام رس کے کنویں والوں نے اپنے سمجھانے والوں کو۔ ثمود کی قوم نے عادیوں نے۔ فرعون اور فرعونیوں نے۔ لوط کی برادری نے۔ بن کے رہنے والوں حضرت شعیب کی قوم نے اور اللہ کی طرف بلانے والے تبع کی قوم نے بھی الٰہی احکام کی تکذیب کی تھی اور ان سب نے رسولوں کا جھٹلایا تھا۔ پس میرے عذاب کا حکم ان پر لگ گیا اسی طرح ان لوگوں کا انجام ہوگا جو اس زمانہ میں قیامت کے وجود سے منکر ہیں نہ صرف منکر بلکہ سخت مشدد مکذب ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کا پیدا کرنا اللہ کی طاقت سے باہر ہے۔ کیا ہم (اللہ) پہلی مرتبہ پیدا کر کے تھک گئے ہیں‘ کہ دوسری مرتبہ پیدا نہیں کرسکیں گے نہیں ہرگز نہیں بلکہ یہ لوگ بے وجہ اور بےدلیل نئی پیدائش کے وقوع سے سخت شک بلکہ انکار میں مبتلا ہیں۔