وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ
اور جو خدا کی یاد سے غافل ہوتا ہے ہم اسپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں پھر وہی اس کا ساتھی ہوتا ہے
(36۔45) پس سنو ! جو کوئی مالک الملک اللہ رحمن رحیم کے ذکر سے غافل ہو کر زندگی گذارتا ہے۔ ہم اس پر شیطان مسلط کردیتے ہیں پس وہ ہر دم اس کا ساتھی رہتا ہے۔ قانون فطرت ہے کہ جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر دوسری طرف رخ کرتا ہے اس کو صحبتی بھی برے لوگ ملتے ہیں اور وہ شیاطین بتوسط ان کے ہم نشینوں کے ان پر حاوی ہوتے ہیں کہ ان کو سیدھے رستے پر چلنے سے روکتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ سیدھے رستے پر جا رہے ہیں۔ یہ ان کا ملاپ اور ملاقات مرنے تک رہتی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ یعنی بے ذکر اللہ زندگی گزارنے والا بعد موت ہمارے پاس آئے گا تو اس شیطانی ملاپ کا نتیجہ دیکھ کر کہے گا اے کاش مجھ میں اور تجھ شیطان میرے ساتھی میں مشرق‘ مغرب جتنا فاصلہ ہوتا میں تیرا منہ بھی نہ دیکھتا۔ کیونکہ تو بہت برا ساتھی ہے وہ کہے گا کہ اب کہنے سے کیا فائدہ ؟ آئو ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ بفحوائے ہمراہ یاراں دوزخ۔ ہمراہ یاراں بہشت کو‘ جس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے سہتے رہے تھے اس عذاب میں بھی اکٹھے رہیں تاکہ دکھ کا احساس کم ہو جواب ملے گا۔ کیا خواب دیکھ رہے ہو ! سنو تم سخت عذاب میں رہو گے اور چونکہ تم لوگ ظالم ہو اس لئے عذاب میں تمہارا شریک رہنا تم کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔ یہ یکجائی تم کو کچھ مفید نہ ہوگی یہ لوگ ہیں متقیوں کے خلاف پس تم سمجھ گئے ہو گے کہ متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ذکر کو اپنی زندگی کا اصلی مقصد جانتے ہیں جنکا اصول زندگی یہ ہے پس از صد سال ایں معنی محقق شد بخاقانی کہ یکدم بااللہ بودن بہ از ملک سلیمانی باوجود ان وعیدوں اور تہدیدوں کے یہ لوگ جو کچھ نہیں سمجھتے تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیا تو ( اے نبی) بہروں کو سنا سکتا ہے یا اندھوں اور کھلی گمراہی میں رہنے والوں کو ہدایت کرسکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ ان میں تو ان باتوں کی حس ہی نہیں یہ تو اپنے خیالات میں ایسے محو ہیں کہ الامان ان کو کچھ سوجھتا ہی نہیں یہی سوجھتا ہے اور یہی کہتے ہیں کہ یہ محمد (ﷺ) چند روزہ ہے آخر مر جائے گا تو کوئی اسے جانے گا بھی نہیں حالانکہ ان کو اصل حقیقت کا علم نہیں کہ ان کا اصلی تعلق تو ہمارے ساتھ ہے بھلا اگر ہم تجھے بقضاء موت دنیا سے لے جائیں تو ان کو اس سے کچھ فائدہ ہوگا؟ نہیں۔ کیونکہ ہم ان سے ان کی بدکاری کا بدلہ لیں گے۔ دنیا میں تیرے رہنے یا دنیا سے چلے جانے سے ان کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ برابر ہے تو (اے نبی) زندہ رہے یا دار آخرت کو انتقال کرے اگر تیری زندگی ہی میں موعودہ عذاب ہم ان کو دکھا دیں تو ہم اس پر بھی قادر ہیں۔ غرض یہ کہ اس کام میں براہ راست ان کا تعلق ہم سے ہے تجھ سے نہیں۔ پس تو ان کی باتوں کی طرف کان مت لگا بلکہ جو کلام تیری طرف بذریعہ وحی کے بھیجا گیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رہ اس میں شک نہیں کہ تو سیدھی راہ پر ہے اور یہ لوگ گمراہی میں ہیں (ہمارے ملک پنجاب میں مرزا صاحب قادیانی نے جو دعویٰ نبوۃ کے ساتھ الہای پیشگوئیاں کی تھیں جو سب یا اکثر جھوٹی ہوئیں تو انہوں نے اور ان کے اتباع نے ایسی آیات کے استدلال پر یہ کہنا شروع کیا کہ پیشگوئی کا صدق ملہم کی زندگی ہی میں ہونا ضروری نہیں۔ اس کی زندگی کے بعد بھی یہی سچی ہوسکتی ہیں۔ اس کا جواب : یہ دیا گیا کہ جو پیشگوئی عام ہو اس میں تو ملہم کی زندگی سے تعلق نہ سہی مگر جو پیشگوئی ملہم کی زندگی سے تعلق رکھتی ہوں وہ تو اس کی زندگی ہی میں پوری ہونی لازمی ہیں۔ ْثلا مرزا صاحب (ملہم) نے کہا کہ میں وحی الٰہی سے کہتا ہوں کہ فلاں عورت سے میرا نکاح ہوجائے گا۔ اگر یہ نکاح نہ ہو تو ہر عقلمند اس کو غلط کہے گا۔ اسی طرح فلاں شخص میری زندگی میں مرے گا۔ اگر وہ نہ مرا بلکہ خود مر گئے تو اس پیشگوئی کے غلط ہونے میں کون کلام کرے گا۔ ہم تو مزرا صاحب کی اس قسم کی پیشگوئیاں بھی بہت دیکھتے ہیں۔ جن کا ذکر ہمارے رسالہ الہامات مزرا“ میں مفصل ہے۔ منہ) اور وہ کلام جو تیری طرف بذریعہ وحی کے بھیجا گیا ہے تیرے ہی لئے مخصوص نہیں بلکہ وہ تیرے لئے نصیحت ہے اور تیری قوم کے سارے لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے اور تم سب سے اس کی بابت سوال ہوگا اور ان لوگوں کو جو اس تعلیم سے نفرت اور شرک وکفر سے رغبت ہے کیا یہ تعلیم کوئی نئی ہے اس امر کی تحقیق کے لئے تو ان رسولوں سے پوچھ جن کو ہم نے تجھ سے پہلے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا۔ یعنی ان کی کتابوں میں دیکھ اور ان کو دکھا کہ ہم نے ( اپنی ذات) رحمن کے سوا کسی اور کی عبادت کرنے کی بھی اجازت دی تھی؟ ہرگز نہیں۔ جس حال میں کسی رسول مقبول کو بھی عبادت میں حصہ نہیں ہے۔ تو اور کسی کو کیا ہوگا اس مطلب کے ذہن نشین کرنے کے لئے ایک مشہور قصہ سنو ! اور نصیحت پائو