وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ
اورانہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا؟
(31۔35) اور سنو ! جب ان لوگوں کی کوئی بات نہیں چلتی تو کہتے ہیں کہ ان دو شہروں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہیں اترا۔ اترا تو ایک غریب آدمی پر۔ کیونکہ ان کے نزدیک بڑائی چھٹائی کثرت دولت مال پر ہے۔ حالانکہ مال ایک بے اعتماد چیز ہے۔ آج یہاں ہے تو کل وہاں باوجود اس کے ان سے پوچھنا چاہیے کیا پروردگار کی رحمت کو یہ لوگ بانٹتے ہیں کیا بارش‘ رزق‘ اولاد‘ مال وغیرہ جو دنیا میں قدرتی طور پر تقسیم ہوتا ہے ان کے حکم یا مشورے سے ہوتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ ہم (اللہ) بذات خود اس دنیا کی زندگی میں ان کی معیشت زندگی کے سامان ان کے درمیان تقسیم کرتے ہیں اور ان میں سے بعض کو بعض پر درجہ میں بلندی بخشی ہے تاکہ ایک دوسرے کو محکوم بنا کر کام لے اور دنیا کا انتظام چلتا رہے اور حقیقت الامر یہ ہے کہ دنیا کا مال ومتاع کوئی اصل مقصود چیز نہیں بلکہ تمہارے رب کی رحمت بہت اچھی ہے ان سب چیزوں سے جو دنیا کے لوگ جمع کرتے ہیں۔ مال بھی اگر اس رحمت کے حاصل کرنے میں مؤید ہے تو بہتر ہے۔ ورنہ ہیچ۔ علم بھی اگر رحمت الٰہی کے حصول میں کام نہیں دیتا تو لغو ہے غرض جو چیز رحمت الٰہی کے حاصل کرنے میں مدد دے وہی کار آمد ہے۔ وگر ہیچ۔ ان لوگوں کو مال ودولت پر جو گھمنڈ ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے (یعنی اللہ کے) ہاں تو اس دنیا کی ذرہ بھی عزت نہیں۔ اور اگر یہ خیال مانع نہ ہوتا کہ سارے لوگ جو سادہ لوح ہیں اور دنیاوی مال ومتاع ہی کو نیکی اور بدی میں مابہ الامتیاز جانتے ہیں جن کے نزدیک یہی اصول ہے کہ جو اس دنیا میں مال ودولت کی وجہ سے راضی ہے وہ دوسری دنیا میں بھی راضی ہوگا۔ ایسے لوگوں کی نسبت یہ خیال نہ ہوتا کہ یہ سب ایک ہی گروہ کے کافر ہوجائیں گے تو جو لوگ اللہ رحمن کی آیات سے منکر ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی سونے کی بنا دیتے اور چھتوں پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بھی چاندی سونے کی جن پر وہ چڑھا کرتے اور اس کے علاوہ ان کے گھروں کے کواڑ اور بیٹھنے کے تخت بھی جن پر وہ بیٹھتے ہیں چاندی سونے کے بنا دیتے (زخرفا بنزع خافضو عطف ہے۔ فضۃ پر اسی لحاظ سے ترجمہ میں ” سونے“ کا لفظ چاندی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ فافہم۔) کیونکہ ان چیزوں کی اللہ کے نزدیک کچھ بھی حقیقت نہیں یہ تو صرف دنیا کی زندگی کا چند روزہ گذارہ ہے۔ جس طرح ریل گاڑی میں کوئی اول درجہ میں کوئی دوسرے میں بیٹھا ہے تو کوئی تیسرے میں۔ غرض سب کی یہ ہے کہ منزل کی مسافت طے ہوجائے اصل عزت وہ ہے جو منزل مقصود پر پہنچ کر حاصل ہو پس سن رکھو اصل عزت وہی ہے جو آخرت یعنی قیامت میں ہوگی اور آخرت تیرے پروردگار کے پاس خاص پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ کیونکہ وہ دارالجزا ہے وہاں تو کمائی کا بدلہ ملے گا۔ اس میں کسی دوسرے کو دخل شرکت نہیں۔ متقی (پرہیزگار) کون ہوتے ہیں بحکم تعرف الاشیاء باضدادھا متقی کی ضد تم کو بتاتے ہیں اسی سے متقی کی پہچان تم کو ہوجائے گی