وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
اور وہی غفورورحیم تو تمہارا کارساز ہے کہ اس کے بندوں نے خواہ کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں خواہ کتنی ہی سخت مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہوں لیکن جب وہ اس کے آگے توبہ کاسرجھکاتے ہیں اور ہر طرف سے کٹ کرصرف اسی کا ہونا چاہتے ہیں توہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے اور وہ ان کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے اور تم لوگ جو کچھ کررہے ہو اسے رتی رتی معلوم ہے۔
(25۔38) اور جو لوگ ایمان لاتے اور نیک اعمال کرتے ہیں اللہ ان کے اعمال صالحہ کو قبول کرتا ہے اور ان کے اعمال صالحہ کے اندازہ سے بھی ان کو زیادہ محض اپنے فضل سے دیتا ہے کیونکہ ان میں اخلاص علیٰ وجہ الکمال ہوتا ہے یہ اسی اخلاص کا نتیجہ ہے اور کافروں کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ اللہ سے تعلق نیاز نہیں رکھتے اسی کی ان کو سز املے گی۔ بغور دیکھو تو انسان عجیب خصلت کا بھوت ہے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر رزق کی تنگی ڈالی جائے تو بس گھبراتے ہیں۔ اور اگر وہ کسی وقت اپنے بندوں پر رزق فراخ کر دے تو زمین میں بغاوت کردیں۔ یقینا جانو کہ اللہ کے پاس تو سب کچھ ہے مگر وہ اندازہ کے ساتھ جس قدر چاہتا ہے نازل کرتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کے حال سے خبردار اور نگران حال ہے اسی لئے تو اس نے اپنے بندوں کے رزق کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ وہی اللہ ہے جو لوگوں کو مایوسی کے بعد بارش اتارتا ہے جب لوگ بے امید ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ موسم بارش ختم ہوگیا اب خرات مائیہ معدوم ہوگئے تو اس وقت اللہ اپنی رحمت بشکل پانی پھیلاتا ہے جس سے دنیا آباد اور شاداب ہوجاتی ہے۔ انسانوں اور حیوانوں کی غذا بنتی ہے کیونکہ وہی اللہ اپنی سب مخلوق کا والی کارساز ہے۔ ان کی حاجتوں کو جانتا ہے اس لئے وہ ان کی ہر ایک ضرورت کو پورا کرتا ہے یہ لوگ اگر اس کی ولایت اور مالکیت سے منہ پھیرے ہوئے ہیں تو اس سے اس کا کوئی نقصان نہیں وہ بذاب خود محمود اور تعریفات کا مستحق ہے اور سنو ! گو اس کا اقرار دلوں میں مرکوز ہے اور دنیا میں کوئی بھی اس کا منکر نہیں ہوسکتا۔ جو ہے اس کا بھی دل اقراری ہے۔ جیسا کہ کسی نیک دل شاعر نے کہا ہے مسلم نے حرم میں راگ گایا تیرا ہندو نے صنم میں جلوہ چاہا تیرا دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے انکار کسی سے بر نہ آیا تیرا تاہم بطور مزید تشفی کے اظہار ہے کہ اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنا ہے اور جو کسی قسم کے جاندار ان میں اس نے پھیلائے ہیں یہ سب اس کی قدرت اور ہستی کے گواہ اور ثبوت ہیں بلکہ زمین کی انگوریاں اور سبز درخت اور درختوں کا ایک ایک پتہ بھی اس کی کمال قدرت کا اظہار کر رہا ہے کیا تم نے ایک بزرگ کا قول نہیں سنا جو کہہ گیا ہے ؎ برگ درختان سبز درنظر ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار اس کی قدرت یہیں پر ختم نہیں بلکہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور جب چاہے گا بعد موت بھی ان کو جمع کرلے گا۔ اس کے قبضہ تامہ کا ذکر اور سنو ! جو کچھ تکلیف پہنچتی ہے خواہ از قسم بدنی ہو یا از قسم روحانی یہ سب تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے کبھی تو شرعی اعمال میں تم سے غلطی ہوتی ہے کبھی قدرتی قانون کا تم خلاف کرتے ہو۔ مثلا شراب خواری اور زناکاری دو فعل ہیں دونوں شرعی گناہ ہیں مگر ساتھ ہی اس کے قدرتی قانون کی خلاف ورزی بھی ہے اس لئے اس جرم پر دو قسم کی سزائیں ہوتی ہیں شرعی اور قدرتی۔ شرعی سزا تو وہ ہے جو حاکم وقت کی طرف سے ملے یا آخرت میں ملے گی۔ قدرتی سزا یہ ہے کہ اس بدپرہیزی سے آتشک ہوجاتا ہے یا جگر وغیرہ اعضاء رئیسہ خراب ہوجاتے ہیں۔ یہ تکلیف قدرتی قانون کے ماتحت ہوتی ہے اس کا دینے والا کوئی دنیاوی قانون یا بادشاہ نہیں جو بے خبری یا عدم ثبوت کی وجہ سے سزا نہ دے سکے بلکہ قانون قدرت ہے جو ہر چیز کے اندر حکمران ہے اس لئے وہ اپنا حکم فورا جاری کرتا ہے اور اللہ کی مہربانی دیکھو کہ وہ تمہارے بہت سے قصور جو تم خلاف شریعت اور قانون قدرت کی خلاف ورزی میں کرتے ہو معاف بھی کردیتا ہے۔ یعنی بعض ایسی بے اعتدالیاں بھی تم سے ہوجاتی ہیں جن کی تلافی کا سامان اس نے محض اپنی قدرت سے مہیا کر رکھا ہے تاہم تم لوگ اس کے ہو کر نہیں رہتے۔ بلکہ اس کے قوانین کی مخالفت کرتے ہو۔ اور اس مخالفت میں سمجھتے ہو کہ اللہ کی مقرر کردہ سزا سے بچے رہو گے ہرگز نہیں کیونکہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہو کہ وہ تمہیں پکڑ نا چاہے اور پکڑ نہ سکے اور نہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی والی ہے اور نہ حمائتی جو تم کو اس کے عذاب سے بچائے پس بہتر ہے کہ تم لوگ اسی کے ہو کر رہو ورنہ پھر خیر نہیں اور سنو ! ٹیلوں جیسے بلند بڑے بڑے جہاز جو باوجود اپنی بلندی کے پانی پر صاف تیرتے ہیں یہ سب اسی اللہ کی قدرت کے نشانات میں سے نشان ہیں دیکھو اللہ ہی نے لکڑی کو ایسا بنایا کہ وہ پانی پر تیر سکے پانی کو ایسا بنایا کہ وہ لکڑی کو اٹھائے لوہے کو ایسا بنایا کہ لکڑی کا وزن ٹھیک رکھے سب سے بالاتر ہوا کو ایسا بنایا کہ تمام کو دھکیل کرلے جائے۔ یہ مت سمجھو کہ یہ چیزیں اپنا فعل کرنے میں خود مختار ہیں۔ نہیں اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا لے پھر وہ جہازات اور کشتیاں سمندر میں کھڑی رہ جائیں بے شک اس واقعہ میں بڑے نشان ہیں صابروں اور شکرگذاروں کے لئے۔ جہازوں پر سیر کرنے والوں کو کبھی تکلیف اور کبھی راحت ہوتی رہتی ہے۔ تکلیف پر صبر کرنا اور راحت پر شکر کرنا ایک مذہبی فرض ہے بے شک ہر صابر وشاکر کے لئے اس واقعہ میں قدرت کے بڑے نشان ہیں وہ اپنی دونوں حالتوں میں اللہ کی طرف جھکتے ہیں اور دل سے یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کو سب قدرت ہے ان جہازوں کو پار اتارے یا چاہے تو ان لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے ان کو غرق کر دے وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اور چاہے تو بہت سے گناہوں سے درگذر کرے ایسے حال میں اس کی قدرت کا کرشمہ خوب ظاہر ہو اور جو لوگ ہمارے حکموں کا مقابلہ کرتے ہیں ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ اگر مواخذہ کرے تو ان کو کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ الٰہی احکام کا مقابلہ انسان اس لئے بھی کرتا ہے کہ اس کے پاس مال ودولت کافی ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ اللہ کا حکم مانوں پس ایسے لوگوں کو سنا دو کہ جو کچھ تم کو ملا ہے جس پر تم اتراتے ہو۔ یہ صرف دنیا کی زندگی کا سامان ہے اس کی مثال ایسی سمجھو کہ سفر میں چند آدمی جا رہے ہیں کوئی ریل پر ہے کوئی گھوڑا گاڑی پر‘ کوئی موٹر پر‘ کوئی بیل گاری پر‘ کوئی پیدل‘ مگر منزل مقصود پر پہنچ کر سب برابر ہوتے ہیں اسی طرح مختلف مراتب کے انسان اس سطح دنیا پر تو امتیاز رکھتے ہیں یہ امتیازات سب موت کے کنارہ تک ہیں اس کے بعد حیثیت انسانیہ میں سب برابر اور اعمال میں مختلف اس وقت جان لیں گے کہ جو نیک کاموں کا بدلہ اللہ کے پاس ہے وہ بہت اچھا اور بہت دیر پا ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ پر ایمان لائے اور اپنے ہر کام میں اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے اچھا بدلہ ہے جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے رہتے ہیں یہ تو ان کا مذہبی پہلو ہوتا ہے اور اخلاقی پہلو اس کا یہ ہے کہ جب وہ کسی ذاتی کام میں کسی شخص پر خفا ہوتے ہیں۔ تو اللہ کے خوف سے فورا بخش دیتے ہیں یہ نہیں کہ سالہا سال تک اس رنج کو لئے جائیں پشتہا پشت ختم ہوجائیں مگر رنج دور نہ ہو اور ان لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں اجر دائمی اور نیک ہے جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم رکھتے یعنی باجماعت پڑھتے ہیں اور ان کی ذاتی خصوصا قومی بالخصوص سیاسی کام آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی انسان عقل کل نہیں اس لئے خود رائی سے کام کرنے میں غلطی کا ہونا بہت اقرب اور آسان ہے بہ نسبت مشورہ کے اسی لئے یہ لوگ مشورہ سے کام کرتے ہیں۔ گو یہ کام ان کا دنیاوی ہوتا ہم چونکہ ماتحت حکم شرعی کے کرتے ہیں اس لئے اجر کے مستحق ہوتے ہیں اور ہمارے دئیے میں سے نیک کاموں میں خرچ کرتے رہتے ہیں یعنی وہ دیتے ہوئے اس خیال کو مدنظر رکھتے ہیں کہ یہ مال جو ہم دیتے ہیں بلکہ وہ بھی جو اس دینے کے بعد ہمارے پاس رہا ہے۔ یہ سب اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔ اس لئے انکو اس کا دینا ناگوار نہیں ہوتا۔ مسئلہ خلافت : مسلمانوں کے دوگروہوں (سنی شیعوں) میں یہ ایک مسئلہ عرصہ سے دیرینہ متنازع چلا آتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفاء ثلاثہ راشدین تھے یا غاصبین۔ سنی فرقے کل انکو راشد یعنی مستحق خلافت جانتے ہیں اور شیعہ ان کو غاصب کہتے ہیں۔ بغور دیکھا جائے تو یہ اختلاف در حقیقت ایک اصولی اختلاف پر مبنی ہے یعنی نصب خلیفہ کا طریق کیا ہے شیعہ کہتے ہیں نصب خلیفہ کا طریق نص ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود خلیفہ مقرر کریں اور ان کے بعد ان کا خلیفہ اپنا جانشین مقرر کرے علی ہذا القیاس۔ چونکہ (بقول شیعہ) آنحضرت نے حضرت علی کو اپنا خلیفہ مقرر کردیا تھا۔ پس وہ خلیفہ ہوئے۔ اور جنہوں نے ان کو خلافت سے ہٹا کر قبضہ کیا وہ غاصب ٹھیرے اہل سنت کہتے ہیں کہ انتخاب کا طریق وہی ہے جو اس آیت میں مذکور ہے فرمان الٰہی ہے کہ مسلمانوں کے کام باہمی مشورے سے ہوتے ہیں یعنی مشورے سے ہونے چاہئیں امرھم شوری بینھم مطلب اس آیت کا عام ہے جس کی طرف ہم نے تفسیر میں اشارہ کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو سیاسیات میں جمہوریت اور مشورہ سے کام کرنا سکھایا ہے۔ جو مطلب آیت کا اہل سنت بتاتے ہیں خوشی کا موقع ہے کہ یہی مطلب فریقین کے مسلمہ برزگ خود حضرت علی (رض) نے بتایا ہے چنانچہ حضرت ممد وح کے الفاظ ہم پر برویت شیعہ نقل کرتے ہیں۔ ناظرین اس سے اندازہ لگا سکیں گے کہ مسئلہ خلافت عرصہ سے طے شدہ ہے جس کی تفصیل بعد حوالہ مذکور ہم کریں گے۔ حضرت امیر المؤمنین علی (رض) کے خطبے اور خطوط ایک کتاب کی صورت میں جمع کئے ہوئے ہیں جس کا نام نہج البلاغت ہے۔ یہ کتاب شیعہ گروہ کے نزدیک قرآن نہیں تو عزت میں کم بھی نہیں اس کتاب میں ایک خط ممدوح کا ہے جو دراصل نصب خلیفہ کے لئے ایک اصول ہے حضرت موصوف نے اپنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلافت حقہ منوانے کے لئے امیر معاویہ کو ایک خط استدلالی صورت میں لکھا جس کے الفاظ یہ ہیں۔ انہ با یعنی القوم الذین بایعوا ابابکرو عمرو عثمان علی ما بایعو ھم علیہ فلم یکن للشاھدان یختارو لا للغائب ان یردو انما الشوری للمھا جرین و الانصار فان اجتمعوا علی رجل و سمو اماما کان ذلک رضی فان خرج من امرھم خارج بطعن اوبدعۃ ردوہ الی ما خرج منہ فان ابی قاتلوہ علی اتباعہ غیر سبیل المئومنین و دلاہ اللہ ما تولی رنھج البلاغت حصہ (١) ص ٧ تحقیق مجہہ سے ان لوگوں نے بیعت کی ہے جنہوں نے ابوبکر عمر اور عثمان سے بیعت کی تھی اسی شرط پر کی ہے جس شرط پر ان کے ساتھ کی تھی پس نہ حاضر کو اب برخلاف رائے دینے کا حق ہے (غیر حاضر کو رد کرنے کی اجازت ہے سوائے اس کے کوئی بات نہیں کہ شوری و اگزیکٹو کونسل) مہاجرین اور انصار کی ہے پس اگر وہ کسی شخص پر جمع ہو کر اس کا نام امام و خلیفہ) رکھیں تو اللہ کے ہاں وہی پسندیدہ ہوگا۔ اگر کوئی بطورطعن یا بدعت کی وجہ سے ان (ممبران شوری) کے فیصلہ سے نکل جائے تو وہ ممبران شوری (یا اگر کٹو کونسل کے ارکان) اس کو مجبور کرکے اسی حال میں واپس کریں گے جس سے وہ نکلا ہے اگر وہ اس میں آنے سے انکار کرے تو وہ اس سے لڑیں گے کیونکہ اس نے غیر مومنین کا راستہ اختیار کیا اور جدھر گمراہی کی طرف وہ پھرا اللہ اس کو اسی طرف پھیرے گا۔ “ اس خط میں جو شوری مہاجرین کا ذکر ہے وہ اسی آیت کے ماتحت ہے جس میں مسلمانوں کا طریق کار بتایا ہے امر ھم شوری بینھم پس یہ آیت اور یہ روایت مسئلہ خلافت کا صاف لفظوں میں فیصلہ کرتی ہے کہ خلیفہ کا نصب و عزل ممبران شوری کے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ اصول یہی ہے کہ جس کسی کو مجلس شوری اپناخلیفہ بنا دے وہی خلیفہ راشد ہے اور خلفائے اربعہ کو شوری نے خلیفہ بنایا۔ لہٰذا وہ خلیفہ راشد تھے۔ الحمد للہ (منہ) قرآن مجید کے پارہ۔ ٤ رکوع ٥ میں ارشاد ہے اعدت للمتقین الذین ینفقون فی السراء و الضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین ” یعنی جنت ان متقیوں کے لئے ہے جو آسانی اور تنگی ہر حال میں اللہ کی راہ میں خرچتے ہیں اور غصہ دبا جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور اللہ ایسے نیک کاروں کو محبت کرتا ہے “ اس آیت میں معاف کرنے والوں کو مقام مدح میں ذکر فرمایا اور متقین کی ذیل میں لا کر ان کو متقین کا فرد قرار دیا۔ اور آیت زیر تفسیر میں بدلہ لینے والوں کو یہی مقام مدح میں درج کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے بدلہ لینا بھی قابل تعریف ہے۔ ان دونوں آیات میں تطبیق یہ ہے کہ بعض مواقع پر بدلہ لینا بھی اچھا ہوتا ہے۔ شیخ سعدی مرحوم جو فلسفہ اخلاق کے اعلی معلم ہیں اعلی اخلاق کی یہ تعلیم دیتے ہیں بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی احسن الی من اسا ”(یعنی برائی کا برا بدلہ لینا آسان کام ہے اگر تو بہادر ہے تو برائی کرنے واے سے نیکی کر) باوجود اس اخلاقی تعلیم کے ان کے وسیع تجربہ نے ان کو اس کہنے پر بھی مجبور کیا ؎ نکوئی با بداں کر دن چنان ست کہ بدکر دن بجائے نیک مرداں ”( یعنی برے لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اتنا جرم ہے۔ جتنا نیکوں کے ساتھ برائی کرنا) “ ان دو مختلف تعلیموں کی کیا وجہ؟ یہ کہ دنیا میں مخالفت دو وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک صحیح واقعہ سے۔ فریقین شریر نہیں مگر ایک فریق سے کوئی کام ایسا ہوگیا ہے جس سے دوسرے فریق کو رنج سے عداوت تک نوبت پہنچی ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی اس کوشش میں ہو کہ میری طرف سے اس کی صفائی ہوجائے جس کی صورت یہ ہے۔ کہ اس کی برائی کے بدلہ میں نیکی کرے تو اس دوسرے فریق کو یہی خیال ہوگا کہ میں غلطی پر ہوں یہ شخص دل سے میرا دشمن نہیں ہے یا کم سے کم اس کی شرافت اس کو اس کے ساتھ شرارت کرنے سے مانع ہوگی۔ یہ تو ہے قسم اول۔ دوسری قسم کی دشمنی ان لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے جو ذاتی طور پر بد اطوار اور شریر ہوتے ہیں جن کی شان میں یہ اخلاقی شعر موزوں ہے نیش عقرب نہ ازپئے کینست مقتضائے طبیعتش انیست ایسے دشمنوں سے سلوک و مروت کرنے سے ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ مجھ سے دب کر ایسا کرتا ہے اس لئے اس کو اور دبانا چاہیے ایسے لوگوں کے حق میں شیخ مرحوم نے کہا ہے ؎ نکوئی بابداں کردن چناں ست کہ بد کر دن بجائے نیک مرداں ہاں قرآن مجید کی غرض چونکہ اصلاح خلق اور امن و امان قائم کرنا اور قائم رکھنا ہے اس لئے اس نے اتنی سختی نہیں کی جتنی شیخ مرحوم نے کی۔ کہ بدوں کے ساتھ نیکی کرنے کو سخت گناہ قرار دیا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کی ایذا رسانی کا بدلہ لینا بھی جائز۔ بلکہ بعض اوقات میں بہتر ہوتا ہے۔ تاہم معافی کو ہاتھ سے نہیں دیا۔ ُبلکہ ساتھ ہی فرمایا۔ فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ :: یہی قرآن مجید کی خوبی ہے کہ میزان عدل اور میزان رحم بلکہ میزان انتظام انسب کی نگہبانی کرتا ہے۔ اور کتابوں کی طرح ایک ہی طرف کو نہیں جہک جاتا۔ جیسا انجیل میں لکھا ہے : ” تم سن چکے ہو کہ کہا گیا آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیرے داہنے گال پر تمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔“ (انجیل متی۔ باب ٥۔ کی آیت ٣٩) اس انجیلی حکم میں مقابلہ کرنا یا بدلہ لینا حرام کیا گیا ہے مگر انسانی فطرت اور سیاست مملکت جس امر کی مقتضی ہے وہ یورپ کی جنگ عظیم سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اگر اس پر عمل ہوتا تو جنگ کی نوبت ہی نہ آتی تو جو فریق ایک مقام دوسرے کا لیتا۔ دوسرا اس کا مقابلہ نہ کرتا۔ بلکہ اور ایک مقام اس کے حوالے کردیتا اسی طرح چند روز میں جنگ کا خاتمہ ہوجاتا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا۔ ؟ ظالم اور اس کی فوج ہی دنیا پر حکمران ہوتے : مگر قرآن مجید ایسی تعلیم کا روادار نہیں جو سیاست ملکی اور فطرت انسانی کے خلاف ہو۔ بلکہ انسانی فطرت کے مطابق اور نظام عالم کے موافق حکم دے کر اپنے پیروان کو ظالموں سے حفاظت کراتا اور اپنے اتباع کو معراج ترقی پر پہونچاتا ہے سچ ہے کیا جانے اس میں کیا ہے جو لوٹے ہے اسپہ جی یوں اور کیا جہاں میں کوئی حسیں نہیں؟ (منہ)