سورة الشورى - آیت 8

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کانہ کوئی یار ہوگا اور نہ مددگار۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(8۔19) اور اصل بات سننا چاہو تو سنو کہ اگر اللہ تعالیٰ بجبر چاہتا۔ تو ان تیرے مخالف اور موافق لوگوں کو ایک گروہ ایماندار بنا دیتا اس کے ارادہ کو کوئی مانع نہیں ہوسکتا لیکن وہ قانون مجریہ سے جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے یعنی اس کی رحمت میں داخل ہونے کا جو قانون ہے اس کے مطابق جو چلتا ہے اس پر رحمت ہوتی ہے اور جو اس کے خلاف کرتا ہے وہ ظالم ہے اپنی سزا بھگتے گا اور یاد رکھو ظالموں کا کوئی حامی اور کوئی مددگار نہ ہوگا۔ کیا ان کی بے عقلی میں بھی شبہ ہے؟ کہ انہوں نے اللہ کے سوا اور لوگوں کو کارساز بنا رکھا ہے حالانکہ اللہ ہی کارساز ہے اس کے سوا نوشتہ تقدیر کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ وہی مردوں کو زندہ کرے گا (اس آیت میں ایک مشکل پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ لو شاء ماضی کا صیغہ ہے اور لو جہاں آتا ہے اس کی جزا منفی ہوتی ہے اس کے منفی ہونے سے شرط کا منفی ہونا ثابت ہوتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام لوگوں کا مسلمان ہونا اللہ نے نہیں چاہا۔ بلکہ جن بعض کو رحمت سے حصہ دینا چاہا ان کو ایمان سے بہرہ ور کردیا۔ صوفیا نہ مذاق میں تو اس کا مطلب صحیح ہے جو کہا کرتے ہیں داد حق را قابلیت شرط نیست بلکہ شرط قابلیت داد اوست مگر متکلما نہ نظر میں یہ ترجیح بلا مرجج ہے جو شان عدل و انصاف سے بعید ہے۔ یہ ہے سوال کا خلاصہ۔ ْْجواب : متکلمانہ روش پر یہ ہے کہ مشیت الہی دو قسم پر ہے (١) ایک بالجبر (٢) دوسری قوانین قدرت کے ماتحت۔ قرآن مجید میں ان دونوں معنی کا استعمال آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے : اتینا عیسیٰ ابن مریم البینت و ایدنہ بروح القدس ولو شاء اللہ ما اقتتل الذین من بعد ھم من بعد ما جآء تھم البینت و لکن اختلفو فمنھم من امن و منھم من کفر و لو شاء اللہ ما اقتتلوا و لکن اللہ یفعل ما یرید پ ٣ ع ١ ہم (اللہ) نے حضرت عیسیٰ کو کھلے نشان دیئے اور اس کو روح القدس کے ساتھ قوۃ دی اگر اللہ چاہتا تو ان (نبیوں) کے بعد والے لوگ دلائل بینات دیکھنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن وہ آپس میں مختلف الخیال ہوئے (اس لئے لڑے) تاہم اگر اللہ چاہتا تو نہ لڑتے مگر اللہ جوارادہ کرتا ہے وہی کرتا ہے اس آیت کا فیہ ہدایت میں پہلے شاء سے ان کے اختلاف کو استدراک کیا ہے۔ دوسرے سے اپنے ارادے کو سابقہ لوگوں کی باہمی جنگ و جدل کو روکنے کے متعلق مشیت الٰہی کا منفی ہونا بتا کر اس جنگ و جدل کا سبب اس کا اختلاف بتایا ہے اس کے بعد مشیت الہی کی نفی کرکے ارادہ الہی کا ثبوت دیا ہے جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سابقہ لوگوں کی باہمی جنگ وجدل کا سبب ان کا باہمی اختلاف اور اس اختلاف پر ارادہ الہی علت موجدہ تھا۔ دنیا دارالاسباب ہے جب کسی چیز کی علت اور علت العلل پائی جائے تو معلول کا پایا جانا ضروری ہے۔ اس لئے ان کی باہمی چپقلشیں ہوئیں باوجود اس کے ارشاد ہے کہ ”’ اگر اللہ چاہتا تو نہ لڑتے“ کیوں اس لئے کہ وہ اپنے وسیع اختیارات میں تمام علل اور اسباب کے ہوتے ہوئے بھی معلول کو وجود میں آنے سے جبرا روک سکتا ہے پس ثابت ہوا کہ لو شاء میں مشیت الٰہی منفی بمعنی جبر ہے اسی طرح آیت زیر بحث کا مطلب ہے۔ یعنی ” اگر اللہ بالجبر مؤمن بنانا چاہتا تو سب کو ایک ہی امت مسلمہ بنا دیتا لیکن جس کو چاہتا ہے وہ رحمت میں داخل کرتا ہے۔ “ یہ دوسری مشیت ان معنی میں ہے جن میں پارہ ٣ کی آیت مرقومہ میں یرید آیا ہے یعنی بقانون مجریہ مشیت بلاجبر پس مطلب آیت کا صاف ہے کہ اللہ ایمان اور اسلام کے بارے میں کسی پر جبر نہیں کرتا اگر وہ جبر سے کام لیتا تو ان سب کو ایک دین (اسلام) پر جمع کردیتا۔ مگر اللہ جبر نہیں کرتا بلکہ فرماتا ہے۔ من شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر (یعنی جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے)۔ پس جو ایمان لانا چاہے گا اللہ اس کو قبول کرے گا اور جو کفر کرے گا اس کو مردود کرے گا۔ اللہ اعلم (منہ) اور وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر اس کو چھوڑ کر اس کے سوا دوسروں سے کسی چیز کی امید رکھنا حماقت نہیں تو کیا ہے ؟ سنو اور یاد رکھو جس جس کام میں تم لوگ اختلاف کر رہے ہو اس کا فیصلہ اللہ ہی کے قبضے میں ہے چونکہ وہ اپنی مخلوق کا خالق ہے اور اپنی قدرت کا عالم اس لئے اس کو معلوم ہے کہ باوجود میری قدرت کے میری مخلوق مجھ سے کس طرح منحرف ہے لہذا وہ مجرموں کو پوری پوری سزا دے گا (اے نبی ! تو کہہ) یہی اللہ میرا پروردگار ہے اسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور اسی کی طرف میں رجوع ہوں میں تو اس کے سوا کسی اور کو اپنا کارساز نہ بنائوں گا کیونکہ وہ میرا پروردگار آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے دیکھو اسی نے تمہارے لئے تمہاری جنس کی بیویاں بنائیں نہ صرف بنائیں بلکہ بیوی کو خاوند کی محتاج اور خاوند کو بیوی کا حاجت مند بنایا اور دونوں میں محبت پیدا کی ہے تاکہ دونوں باہمی محبت اور سلوک سے رہیں یہ نہیں کہ انسان ہی کو جوڑے جوڑے بنایا بلکہ اور چارپایؤں کو بھی جوڑے جوڑے بنایا دیکھو وہی تم کو اس جہاں میں پیدا کر کے ادھر ادھر پھیلاتا ہے اتنا کچھ تو کرتا ہے مگر تعریف یہ ہے کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں پس اس کی صفات کمال کو سن کر یہ خیال مت کرو کہ وہ فلاں کاریگر یا فلاں مشین میں یا مشین میکر کی طرح ہوگا۔ نہیں حق یہ ہے کہ نہ تم اس کی ذات کو پہچان سکتے ہو نہ اس کی صفات کو قیاس کرسکتے ہو کیا تم نے مولانا روم مرحوم کا شعر نہیں سنا؟ ؎ دور بینان بارگاہ است جزازیں پے نبرداہ اندکہ ہست یعنی اللہ کی ذات وصفات کے سمندر میں بڑے بڑے پیراک عارفان اللہ بھی اس سے زیادہ نہیں جان سکے کہ ہے لیکن یہ بات کہ وہ کیسا ہے ان کو بھی پتہ نہیں ملا۔ پس تم بھی اس سے زیادہ نہیں سمجھ سکتے۔ کہ وہ ہے اور اس کی صفات میں سے خاص صفات سمع بصر ہیں جو وہ بھی بے کیف ہیں یعنی ماننے اور کہنے کے قابل صرف اتنی بات ہے کہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے وہ سب کے حالات سنتا اور دیکھتا ہے نہ صرف سنتا اور دیکھتا ہے بلکہ اختیار اس کے اتنے وسیع ہیں کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہوتا ہے سب اس کے قانون قدرت کے تحت ہوتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے رزق فراخ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے (دنیا میں ہم قوانین الٰہیہ دو طرح کے پاتے ہیں ایک وہ ہیں جن میں ہمارا کوئی اختیار نہیں بلکہ ہم ان میں محض محکوم ہیں جن کے ماتحت ہماری حیوۃ موت مرض صحت وغیرہ بلکہ کل دنیا کا نظام ہے اس قسم کا نام ” قانون قدرت“ ہے دوسری قسم وہ قوانین ہیں جن پر عمل کرنا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے جیسے افعال شرعیہ صوم صلوٰۃ اخلاق وغیرہ اس قسم کا نام ” قوانین شرعیہ“ ہے۔ پہلی قسم میں ہم انسان بلکہ جملہ مخلوق تابعدار ہیں تو دوسری میں مختار۔ اسی لئے دوسری قسم کے متعلق ارشاد ہے من شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر (جو چاہے مانے جو چاہے نہ مانے) ان دونو قسموں میں بہت امتیاز ہے ان میں بے امتیازی کرنے سے بہت غلطیاں پیدا ہوجاتی ہیں واللہ اعلم۔ (منہ) یہ مت سمجھو کہ وہ بے وجہ اور بے حکمت ایسا کردیتا ہے نہیں بلکہ باحکمت کرتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اس نے تمہارے جسمانی انتظامات کے علاوہ روحانی انتظام بغرض ہدایت یہ کر رکھا ہے کہ دنیا میں انبیاء کا سلسلہ قائم کیا ان کو بذریعہ وحی اپنے احکام سے اطلاع دیتا رہا گو وہ اپنے اپنے اوقات میں آئے اور مختلف زبانوں اور مختلف زمانوں میں تعلیم دئیے گئے تاہم ان سب کا مدعا ایک ہی تھا۔ چنانچہ تمہارے لئے وہی دین الٰہی مقرر کیا ہے جس کی بابت نوح نبی کو ہدایت کی تھی اور جو بذریعہ وحی تمہاری طرف حکم بھیجا ہے وہ بھی تمہارا دین ہے اور جس کی ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو ہدایت کی تھی اس کا مختصر مضمون یہ ہے کہ دین الٰہی کو قائم رکھو اور اس میں متفرق نہ ہو۔ یعنی خود بھی اخلاص مندی سے عمل کرتے رہنا اور لوگوں کو بھی اخلاص فی العمل سکھانا ہر وقت اشاعت توحید وسنت میں لگے رہنا۔ کسی وقت غفلت نہ کرنا۔ نہ توحیدی مضامین میں اختلاف پیدا کر کے متفرق گروہ بننا۔ بس یہی تمام حکموں کی جڑ ہے۔ اس کو مضبوط پکڑے رہنا۔ تمہارا کوئی کام اس اصول سے باہر نہ ہو۔ کہ وہ تمہارا مولا ہے اور تم اس کے تابعدار غلام ہو۔ اس لئے ہر وقت دست پستہ حاضری کے سوا چارہ کیا؟ پس تم اسی خیال پر جمے رہو اور اسی کی طرف لوگوں کو بلائو جس مطلب کی طرف تم لوگوں کو بلاتے ہو یعنی اللہ سے تعلق خاص پیدا کرنے کی طرف اگرچہ وہ تعلیم ان مشرکوں پر ناگوار اور سخت شاق ہے۔ وہ تو ایسی بات کو کام میں ڈالنا بھی نہیں چاہتے بلکہ سخت نفرت کرتے ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ انہی میں سے جس کو چاہے گا انتخاب کر کے اپنی طرف کھینچ لے گا اور اپنے کام میں لگا لے گا۔ اور جو اس کی طرف جھکیں گے ان کو اپنی طرف راستہ دکھائے گا مطلب یہ کہ جو لوگ ذرہ بھی دل میں اللہ کی محبت یا خوف کو جگہ دیں گے ان کو راہ نمائی کر دے گا اس کے بعد ان میں سے جس کو اپنی مشیت کے مطابق چاہے گا برگزیدہ کرے گا۔ یہی مضمون پہلی کتابوں میں پہلے لوگوں کو بتلایا گیا تھا کہ کل اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے مگر یہ موجودہ لوگ جو بعد آجانے پورے علم کے جدا جدا ہوئے ہیں تو محض آپس کی ضد اور حسد سے ہوئے ہیں اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک وقت مقرر تک فیصلہ کا حکم نہ ہوچکا ہوتا یعنی علم الٰہی میں یہ مقدر نہ ہوتا کہ ان مخالفوں کے فیصلہ کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے۔ تو ان میں مدت کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ یعنی سچوں اور جھوٹوں میں امتیازی نشان کیا جاتا۔ مگر ایسا نہ کرنے میں مصلحت الٰہی ہے۔ تعجب اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان پہلے لوگوں کے بعد جو لوگ آسمانی اور الہامی کتاب کے وارث ہوئے وہی اس تعلیم سے جو اوپر مذکور ہوئی ہے سخت شک بلکہ انکار کر جاتے ہیں پس اے نبی تو اس حقانی تعلیم کی طرف لوگوں کو بلاتا رہیو اور جیسا تجھے حکم ہے۔ اس کام پر پختہ اور مضبوط رہیو اور ان مخالف لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریو اور اگر تیرے مخالف تجھ کو اپنی طرف بلائیں تو کہو میں اس کتاب پر ایمان لایا جو اللہ نے اتاری ہے اور اس کے سوا میں کسی اور کو نہیں مانتا۔ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تم لوگوں کے اختلافات میں عدل کے ساتھ فیصلہ کروں چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور تمہارا رب ہے اور ہمارے کام ہم کو اور تمہارے کام تم کو ہوں گے۔ اس لئے ہم میں اور تم میں تکرار کی کوئی وجہ نہیں جب ہم تم اس کے غلام ہیں اور وہ ہمارا مولا ہے تو پھر جھگڑا کیسا؟ اللہ ہم کو اور تم کو ایک جا جمع کرے گا وہیں ہمارے اختلافات کا فیصلہ ہوگا اسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ گویا ہم اور تم ایک باپ کے بیٹے اور ایک دادا کی اولاد ہیں جو کچھ ہم میں اختلاف کی وجہ سے علیحدگی پیدا ہوگی ہے۔ وہ عارضی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب اختلافات کا فیصلہ کر دے گا اس فیصلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں اللہ کی الٰہی تسلیم ہونے کے بعد کٹ حجتیں نکالتے ہیں کبھی اس سے انکار کرتے ہیں کبھی اس کے شریک بناتے ہیں ان کی حجتیں اللہ کے پاس بالکل بودی ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے سنو ! تم مسلمانوں کو اس سے مطمئن رہنا چاہیے کہ الٰہی وعدے کس طرح پورے ہوں گے۔ کیونکہ اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے یہ کتاب سچی تعلیم کے ساتھ اتاری ہے اور اسی نے میزان عدل نازل کی ہے۔ (اس کی مثال آج کل کے مسلمانوں میں بھی ملتی ہے۔ جو قرآن مجید کی اصلی تعلیم توحید و سنت سے متنفر اور شرک و بدعت میں راغب۔ جب ان کو اصلی تعلیم سنائی جاتی ہے تو اعراض کر جاتے ہیں اور سنانے والے کو برے بھلے خطابوں سے یاد کرتے ہیں۔ ہماری اس توجیہ میں منہ کی ضمیر کا مرجع کہیں دور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہی الکتاب ہے جو اور ثوا الکتٰب میں مذکور ہے۔ اس توجیہ میں ان کی تحقیر اور تذلیل زیادہ ہے (منہ) میزان عدل ہی ایسی چیز ہے کہ دنیا کو اخلاق حسنہ سے آراستہ پیراستہ کرسکتی ہے وہ کیا ہے سنو !{اِعْدِلُوا ھُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی} ہر کام میں عدل انصاف کیا کرو عدل ہی تم کو بہت جلد تقوی کی منزل کے قریب لے جائے گا پس یہ یقین رکھو کہ جس اللہ نے یہ کتاب اور یہ میزان اتارے ہیں وہی اس کی اشاعت کا ذمہ دار ہے تمہاری فکر سے کیا بنتا ہے اور کیا بنے گا تمہارا کام صرف یہ ہے کہ جو تم کو حکم ہوتا ہے کئے جائو اور اس فکر میں نہ لگو کہ کیا ہوگا اے نبی ! تو تو بالکل اس سے بے فکر رہ کر عبادت الٰہی میں لگا رہا کر تجھے کیا معلوم قیامت کی گھڑی شائد قریب ہو۔ جو لوگ اس پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس کے لئے جلدی کرتے ہیں شب وروز ان کا یہی تقاضا ہے۔ کہ کب ہوگی کب ہوگی یہ بھی نہیں کہ اس کے خوف سے بلکہ محض مخول سے ہاں جو لوگ اس کا یقین رکھتے ہیں وہ اس سے ہر حال ڈرتے رہتے ہیں اور دل سے جانتے ہیں کہ وہ ضرور ہوگی۔ سنو ! جو لوگ قیامت کی گھڑی میں شک کرتے ہیں وہ دورازحق گمراہی میں ہیں مگر اللہ بھی اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ بہت سی خطائوں سے چشم پوشی کر کے جس کو چاہتا ہے فراخ رزق دیتا ہے اور وہ اپنی ذات خاص میں بڑا زور آور غالب ہے اے نبی ! ہمارا غلبہ قدرت بندوں کو مقہور اور مظلوم بنانے کے لئے نہیں بلکہ باقاعدہ اپنی قدرت کے ماتحت چلانے کو ہے