سورة غافر - آیت 14

فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پس اللہ کے لیے اپنے دین کو خالص کرکے اسی کی عبادت کرو، خواہ کافر لوگ کتنا ہی برا مانیں۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(14۔22) پس تم اپنی حاجات میں اللہ ہی سے خالص دعا مانگا کرو کسی اور سے نہیں یعنی اپنی طاعت اور دعا میں خالص رخ اسی کی طرف رکھو اسی کے ہو رہو تمام کاموں کی کنجی اسی کے ہاتھ میں جانو اگرچہ تمہارے ایسا کرنے کو کافر لوگ برا جانیں سنو ! ایسے اللہ کی عبادت کرنا کسی مذہب میں برا ہوسکتا ہے ؟ جو بڑا عالی درجہ یعنی ساری دنیا کی حکومت اور تخت سلطنت کا اصلی مالک ہے تمام دنیا کے بادشاہ اور امراء سب اسیگ کے ماتحت ہیں وہ چاہے تو ایک منٹ بلکہ سیکنڈ میں بڑے سے بڑے بادشاہ کو تخت سے اتار کر تختے پر بٹھا دے۔ کیا تم نے نہیں سنا جو کسی اہل دل نے کہا ہے ؎ حسب قاعدہ عربیہ عبارت یوں چاہئے تھی فادعوا للہ مخلصین لہ الدعاء اس لئے الدین کو الدعاء کے معنے میں لیا گیا ہے (منہ) ہست سلطانی مسلم مرورا طرفۃ العینے جہاں برہم زند نیست کس رازہرۂ چون وچرا کس نمے آرو کہ آنجادم زند وہ اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے تاکہ وہ بندہ اللہ کی ملاقات کے دن یعنی روز قیامت کے عذاب سے لوگوں کو ڈراوے جس روز وہ سب اللہ کے سامنے کھلے میدان میں کھڑے ہوں گے۔ ایسے سامنے ہوں گے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی چھپا نہ ہوگا تمہیں بتلائو اس روز خالص حکومت کس کی ہوگی؟ بجز اس کے کچھ جواب ہے؟ کہ اکیلے زبردست اللہ کی ہوگی۔ اس دنیا میں بھی درحقیقت اسی کی حکومت ہے تاہم یہاں دعویدار ان حکومت مدعی بنے ہوئے ہیں وہاں اتنا بھی کوئی نہ ہوگا۔ اس روز ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا یہ یاد رکھو کہ اس دن ظلم کا نام ونشان نہ ہوگا بلکہ ہر ایک کو پورا پورا بدلہ ملے گا یہ مت سمجھو کہ اتنی مخلوق کا اتنی جلدی فیصلہ کیسے ہوگا؟ یاد رکھو اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے کیونکہ وہ حساب اللہ اپنے علم حاصل کرنے کو نہیں کرے گا اس کو تو سب حال معلوم ہے اصل حساب تو قبروں سے نکلتے ہی سب کو معلوم ہوجائے گا بلکہ الٰہی حساب بصورت فیصلہ ہوگا اور جرائم کا علم مجرموں کو فطری ہوگا جس سے وہ کسی طرح انکار نہ کرسکیں گے اسی فطری اطلاع کے لئے ہم (اللہ) نے سلسلہ انبیاء قائم کیا اور اسی غرض سے تجھ کو اے نبی ہم حکم دیتے ہیں کہ ان مشرکوں کو اس قریب آنے والی مصیبت کے دن سے ڈرا جب مارے خوف کے مخلوق کے دل منہ کو آئے ہوں گے اور وہ لوگ غم وغصے میں بھرے ہوں گے پیش نہ جائے گی اپنی کمزوری اور سرکار الٰہی کی خفگی اور جوش غضب پر ہوگا۔ اس لئے بحکم عصمتِ بی بی ست از بے چادری بے دست وپاچپ رہیں گے۔ اس روز ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا جو ان کی بلا کو خود ہٹا دے اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جو سفارش کر کے ان کی تکلیف کو ہٹوا دے کیسے ہٹوائے جبکہ مالک الملک اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ ان کی آنکھوں کی خیانت جانتا ہے اور جو ان کے سینوں میں مخفی ہے وہ بھی جانتا ہے اسی واسطے تو یہ بات بالکل سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ اور جن لوگوں کو اس کے سوا یہ مشرک لوگ پکارتے اور دعائیں مانگتے ہیں خواہ وہ نبی ہوں یا ولی وہ کچھ نہیں کرسکتے پھر ان کو کیا ہوا ہے کہ ان سے ایسی باتوں کی توقع رکھتے ہیں جو ان کی طاقت میں نہیں کچھ کرنا تو بڑی بات ہے وہ تو ان کی فریاد بھی نہیں سنتے اور اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے کیا اب بھی یہ لوگ اللہ کی اتاری ہوئی تعلیم سے انکار ہی کرتے رہیں گے ؟ کیا انہوں نے ملک میں پھر کر سیر نہیں کی دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے گذرے ہیں ان کا انجام کیسا برا ہوا سب تباہ وبرباد ہوگئے حالانکہ وہ ان سے زیادہ قوت والے اور ملک میں تعمیری نشانات از قسم قلعجات وغیرہ بہت مضبوط رکھتے تھے پس اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑا تو ایسا پکڑا کہ بالکل تباہ کردیا پھر ان کو الٰہی غضب سے بچانے والا کوئی نہ ہوا۔ یہ حالت ان کی اس لئے ہوئی کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے احکام لے کر آئے تھے پھر انہوں نے ان احکام کا انکار ہی کیا نہ صرف انکار بلکہ مخالفت پر اصرار کرتے رہے پس اللہ نے ان کو پکڑا ایسا پکڑا کہ زندہ نہ چھوڑا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا سخت عذاب والا ہے۔ گو ان انبیاء کے مخالفین بڑی قوت والے تھے مگر اللہ کی قوت کے سامنے ان کی پیش نہ گئی ذرا اس کی تفصیل سنو ! اور نصیحت پائو