كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔
(110۔117)۔ چنانچہ تم بھی اے مسلمانو ! ایک عمدہ اور نیک جماعت ہو جو لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اللہ اکیلے پر ایمان رکھتے ہو بھلے کام لوگوں کو سکھلاتے ہو اگر یہ کتاب والے بھی تمہاری طرح قرآن کو مان لیتے تو ان کے لئے اچھا ہوتا گو بعض ان میں سے مومن ہیں لیکن بہت سے ان میں کے بد کار ہیں اس لئے تو یہ تم سے عداوت رکھتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ بجز زبانی ایذا کے کوئی تکلیف تم کو نہ پہنچا سکیں گے شان نزول (لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّآ اَذٰی) عبداللہ بن سلام (رض) اور اس کے ساتھی جب مسلمان ہوئے تو یہودیوں نے ان کو تکلیف پہنچانے کا قصد کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم اور اگر بقول شخصے چوحجت نماند جفا جوئی را بہ بیکار کردن کشد روئے را تم سے لڑنے کو آئیں گے تو پیٹھ دیکر بھاگیں گے پھر یہ بھی نہیں کہ مجتمع ہو کر غلبہ اور فتح پاویں گے بلکہ ذلیل و خوار ہو نگے کبھی انکو اللہ کے ہاں سے مددنہ پہنچے گی کیونکہ اللہ کے ہاں سے ذلت ان پر غالب کی گئی ہے جہاں پائے جائیں گے ذلیل رہیں گے مگر اللہ کی پناہ اسلام میں یا لوگوں کی پناہ میں جزیہ اور ٹیکس دے کر رہیں گے تو امن پاویں گے اور اللہ کے غضب میں آئے ہوئے ہیں اور ان پر ذلت اور خواری برس رہی ہے کیونکہ اللہ کے حکموں سے انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے یہ ان کی حالت اس لئے ہوئی کہ ابتدا میں شریعت کی بے فرمانی کرتے اور حد سے بڑھتے تھے حتی کہ نوبت بایں جا رسید ہاں یہ ٹھیک ہے یہ سب یکساں بھی نہیں ان کتاب والوں میں سے بعض لوگ سیدھی راہ پر بھی ہیں جو سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی آیتیں دن رات پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر کامل یقین رکھتے ہیں اور نیک کام بتلاتے ہیں اور برے کا موں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں کو تو ایسے خوش ہو کر کرتے ہیں کہ گو یا ان میں دوڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ عام حالت میں نیک ہیں اور اپنے کئے پر مغرور نہیں ہوتے شان نزول (لَیْسُوْا سَوَآئً) عبداللہ بن سلام وغیرہ کے مسلمان ہونے پر یہودیوں نے طعن کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریر شریر لوگ ہوتے ہیں کوئی شریف نہیں ہے اگر شریف ہوتے تو اپنے باپ دادا کے طریق کو کیوں چھوڑتے اس قصہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم۔ راقم کہتا ہے باپ دادا کے طریق کی محبت اکثر دفعہ عوام کو باعث گمراہی ہوتی ہے جس کا بارہا تجربہ ہوچکا ہے۔ مسلمان بھی اسی بلا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمُ لَایَعْلَمُوْنَ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی قبولیت ہے اور آئندہ کو عام مژدہ ہے کہ جو نیکی کا کام کریں گے ان کی بے قدری نہ کی جا وے گی کیونکہ اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ان نیک نیتی کا ان کو بدلہ دیگا اور جو لوگ اس کے حکموں سے منکر ہیں وہ بہت ہی بری حالت میں ہوں گے ان کے مال اولاد اللہ ہاں ان کو کچھ کام نہ آویں گے۔ یہی لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے دنیا میں جو کچھ بغرض اشاعت مذہب خرچ کرتے ہیں کہ کسی طرح سے لوگ ان کے دام تزویر میں پھنسیں یہ نہ سمجھیں کہ اس کا ان کو ثواب ہوگا بلکہ وہ پالے والی بائو کی طرح ہے جو ظالموں کے کھیت پر پہنچ کر اس کو ضائع کرتی ہے اسی طرح ان کے چندے ہیں جو لوگوں کے گمراہ کرنے میں خرچتے ہیں باقی اعمال کو جو کبھی نیت خالص سے کئے ہوں ضائع کردیتے ہیں اللہ تو ان پر کسی طرح ظلم نہیں کرتا لیکن یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا غضب لیتے ہیں شان نزول :۔ (مثل ماینفقون) اہل کتاب تو ہمیشہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو پھسلاویں اس تدبیر میں سینکڑوں ہزاروں روپیہ بھی خرچ کرتے جیسا کہ آج کل پادری لوگ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے خرچ اور چندہ کے متعلق بیان فرماتا ہے (معالم بتفصیل منہ) اس تشبیہہ میں وقت ہے یعنی فاعل کو فاعل سے تشبیہہ دی ہے یا مفعول کو مفعول سے۔ اکثر بزرگوں کی تفسیر اور تراجم سے معلوم ہوتا ہے کہ مفعول کو فاعل سے تشبیہہ ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے کفر و شرک کی وجہ سے ان کے نفقات ضائع ہیں۔ میں نے اس میں دقت سمجھی ہے اس لئے نفقات کو ہالکات نہیں بتایا بلکہ مہلکات بتایا ہے۔ اس کے مقابل میں مشبہ بہ رنج ہے جو مہلک ہے۔ فافھم منہ