وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگے کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔
(103۔109)۔ اور سب مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی قرآن مجید کو مضبوط پکڑو۔ اور اس کی تبلیغ میں پھوٹ نہ ڈالو ورنہ تمہارے دشمن تم پر غالب آجائیں گے اور اپنے حال پر اللہ کا احسان یاد کرو جب تم آپس میں دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی پس تم اس کے فضل اور مہربانی سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور یاد کرو جب تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اور قریب تھا کہ مرتے ہی اس آگ میں داخل ہوجاتے پھر اس نے تم کو اپنے رسول کے ذریعہ اس سے بچایا جس طرح تم کو اس بلا سے رہائی دی اسی طرح حسب مصلحت تمہارے لئے احکام بیان کرتا رہے گا تاکہ تم راہ پائو۔ دیکھو ! تمہاری ہدائت کے لئے ہم نے یہ انتظامی حکم دیا ہے کہ تم میں سے ایک جماعت علماء کی ہمیشہ موجود رہے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے اور انکو نیکی کے کام بتلائے اور بروں سے روکے اور خود بھی نیک عمل کرے یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کریں گے اور یہی لوگ با عزاز و اکرام نجات پاویں گے یہ آیت علماء کرام کے اظہار عزت کو کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی اور عزت کی خبر دیتا ہے ہاں ذمہ داری بھی بڑی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ کہنے پر عمل بھی کریں ورنہ لم تقولون مالا تفعلون کا عتاب ہے۔ ١٢ البتہ یہ ضرور ہے کہ علم پڑھ کر اغراض دنیوی کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن ہو کر دھڑے بندی نہ کرنا اور ان لوگوں کی طرح مت ہونا جو اغراض دنیاوی کے لئے آپس میں پھوٹ پڑے۔ اور احکام پہنچنے اور سمجھنے کے بعد مختلف ہوگئے کیونکہ دنیا میں بھی دانائوں کے نزدیک یہ لوگ ذلیل ہیں اور قیامت کے روز بھی ان خود غرض لوگوں کو بڑا عذاب ہوگا جس دن بہت سے چہرے اپنی نیک کرداری کی وجہ سے چمکتے اور بہت سے اپنی بد کرداری کی وجہ سے سیاہ ہونگے پس اس روز سیاہ منہ والوں سے فرشتے پوچھیں گے کیا تم ایمان کی باتیں پہنچنے کے بعد منکر ہوئے تھے پس اپنے کفر اور انکار کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو جس سے تمہاری نجات نہ ہوگی اور دوسرے لوگ ان کے مقابل سفید چہرے والے اللہ کی رحمت میں ہمیشہ رہیں گے اور نعماء الٰہی میں عیش و عشرت سے گزاریں گے یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں جو تجھ کو (اے نبی) راستی سے سناتا ہے جو چاہے نیک عمل کر کے رحمت الٰہی سے حصہ لے اور جو چاہے سیاہ منہ کر کے عذاب میں پھنسے اپنے اپنے کئے کا پھل پاویں گے تیرا کیا لیں گے اللہ تعالیٰ کا ارادہ جہان کے لوگوں پر ظلم کرنے کا ہرگز نہیں کیونکہ سب کچھ جو آسمان اور زمین میں ہے اللہ ہی کا مخلوق اور ملک ہے اور انکی حاجتوں کے سب کام اللہ ہی کی طرف رجوع ہیں پس جبکہ پیدائش بھی اسی کی اور محتاج بھی اسی کے پھر بھلا وہ ظلم کیوں کرنے لگا بلکہ وہ تو ہمیشہ اپنے بندوں کی ہدائت کے لئے رسول بھیجتا رہا نیک بندوں کو لوگوں کی ہدائت کے لئے پیدا کرتا رہا