سورة آل عمران - آیت 98

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سب کا گواہ ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(98۔102)۔ اب بھی اگر یہ لوگ ایسی ویسی باتیں کریں تو تو کہہ دیجو کہ اے کتاب والو ! کیوں اللہ کے حکموں سے جو ہم پر بذریعہ وہی اترے ہیں انکاری ہوتے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰتمہارے سب کاموں پر نگران ہے تو ان کو یہ بھی کہہ دے اے کتاب والو ! کیوں بے جا حیلوں حوالوں سے ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہو ؟ اس میں عیب جوئی کرتے ہو حالانکہ تم اس کی حقیقت کے گواہ ہو سنو ! اور یاد رکھو کہ اللہ عالم الغیب تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں تمہاری بد اعمالیوں کی پوری پوری سزا دے گا اصل یہ ہے کہ جس کے دل میں خوف اللہ نہ ہو اور اپنی ہی بات پر اس کو ضد ہو تو ایسے شخص کو کسی طرح ہدائت متصور نہیں بلکہ دوسروں کو اس سے ضرر کا خوف ہے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسلمانواگر تم ان کتاب والوں میں سے جو محض ضد سے حق کو چھوڑے ہوئے ہیں کسی ایک گروہ کے بھی مذہبی باتوں میں تابع ہوئے اور ان کی باتوں کو دل آویزلفظوں میں سن کر پھنس گئے تو یاد رکھو کہ وہ ایمان لانے کے بعد بھی تم کو کافر کر ڈالیں گے تم کیسے ان کی سن کر کافر ہونے لگے کیا تم ان سے مسائل دینی پوچھتے ہو حالانکہ شب و روز اللہ کے احکام تم پر پڑھے جاتے ہیں اور اس کا رسول بذات خود تم میں موجود ہے پس تم اللہ کی ہدائت جو رسول سے سنو اس کی اتباع کرو۔ اور اسی پر بس کرو کیونکہ جو شخص اللہ سے مضبوط تعلق کرتا ہے بیشک وہ سیدھی راہ پر ہے جو عنقریب اس کو منزل مقصود تک پہنچا دے گی شان نزول :۔ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اِنْ تُطِیْعُوُا) انصار مسلمانوں کے دو قبیلے اوس او خزرج تھے قبل اسلام ان میں بہت ہی کشت و خون ہوچکی ہوئی تھی بعد حصول شرف سلام پہلا کینہ اور عداوت کا ان میں نشان بھی نہ رہا اس الفت اور برادری کو دیکھ کر جنٹلمین اہل کتاب یہودیوں کو رشک پیدا ہوا ایک شخص شماس نامی انصار کی مجلس میں آیا اور ان کو پہلے مناقشات یاد کرانے لگا چونکہ نئی نئی مصلح تھی اس کے مغالطہ میں آکر انصار آپس میں ناچاقی کرنے لگے یہاں تک کہ دونوں قبیلوں کے مقابلہ کے لئے ایک دن مقرر ہوا کہ آپس میں جنگ کریں گے جب یہ خبر حضور اقدس کو پہونچی تو آپ مخالفوں کی غرض کی تہ کو فوراً پہنچے اور بذات خود موقع لڑائی پر تشریف لے جا کر دونوں قبیلوں کو سمجھایا پھر کیا تھا سب سمجھ گئے اور اسی وقت آپس میں ملاقات اور معانقہ ہوگئے اس قصے کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ مسلمانو اس لئے تمہیں کہا جاتا ہے کہ ان کو چھوڑو اور اللہ ہی سے ڈرتے رہو جتنا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے جیسا وہ حقیقی شہنشاہ دنیا اور آخرت کا مالک ہے اسی انداز سے اس کا ڈر رکھو اور مرتے دم تک اسی کے تابع رہو