إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
(اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا، (٢٣) اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان ( کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔ اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے، ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ (٢٤) پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
یاد کرو جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ تو ان موزیوں کی ایذا سے بے فکر رہ تیری جان تک نہیں پہنچ سکیں گے بے شک میں ہی تجھے فوت کرنے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا اور ان کافروں کی بد زبانی سے بذریعہ قرآن پاک کرنے والا اور تیرے تابعداروں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھنے والاہوں پھر بعد مرنے کے میری ہی طرف تم کو آنا ہے پس جس جس بات میں تم جھگڑتے ہو تم میں فیصلہ کروں گا مومنوں کو ثواب دوں گا اور کافروں کو عذاب۔ سید صاحب و مرزا صاحب کی غلطی :۔ (اِنِّیْ مُتَوَفِیْکَ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ اسی بزرگ (حضرت مسیح علیہ السلام) کے متعلق (جن کی تمام زندگی کے حالات کے علاوہ مرنے جینے میں بھی لوگ مختلف ہیں) ان کی وفات کا ذکر فرماتا ہے۔ اس آیت کے معنی میں علماء کا قریب قریب اتفاق ہے کہ یہاں موت مراد نہیں بلکہ دنیا سے اٹھانا مراد ہے مگر ہم نے سید احمد صاحب جو اس مسئلہ (وفات مسیح) کے موجد ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لحاظ سے (جو سید صاحب کے اس مسئلہ اور دیگر استحالہ سپر نیچرل میں پیرو ہیں) اس آیت کے معنی میں انہیں کا ترجمہ منظور کیا ہے اور متوفی کے معنی موت دینے والا ہی لکھا ہے مسئلہ ولادت مسیح میں تو سید صاحب ہی ہمارے مخاطب تھے اس مسئلہ (وفات مسیح) میں دونو صاحبوں ( سید صاحب و مرزا صاحب) سے (جو دراصل پیرو پیرو ہیں) ہمارا روئے سخن ہے۔ اس بیان سے پہلے کہ قرآن شریف نے اس مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ دیا ہے بیرونی شہادت دیکھنی بھی ضروری ہے۔ یہود و نصاریٰ جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حالات کو بچشم خود دیکھنے والے اور ایک دوسرے سے نسلاً بعد نسل سننے والے ہیں اس پر متفق ہیں کہ حضرت ممدوح سولی دیئے گئے گو ان کے اتفاق کے نتائج مختلف ہیں یہود کا نتیجہ بموجب تعلیم تورٰیت استثنا ١٣ باب فتح یابی ہے اور عیسائیوں کا نتیجہ کفارہ گناہ ہے خیر اس کا یہاں ذکر نہیں ہماری غرض صرف یہ ہے کہ دونوں فریق اس پر متفق ہیں کہ مسیح ! ؔسولی ہی دیئے گئے۔ پس ان دونوں گروہوں کے اتفاق سے یہ امر باآسانی سمجھ میں آسکتا ہے کہ حضرت مسیح موت طبعی سے نہیں مرے ورنہ ممکن نہ تھا کہ دونوں گروہوں سے ان کی موت مخفی رہتی کیونکہ یہود اور نصاریٰ سے زائد اور نصاریٰ یہودیوں سے بڑھ کر ان کے حالات کے متلاشی تھے۔ یہودیوں کی غرض یہ تھی کہ وہ کہیں ملیں تو ان کو موت کا مزہ چکھائیں۔ عیسائیوں کو ان سے دلی محبت تھی اس لئے وہ ان کے حال کی تلاش میں سرگرم تھے چنانچہ اناجیل مروجہ سے اس بات کا پتہ باآسانی ملتا ہے کہ عیسائیوں کو مسیح کے حالات سے کس قدر مانوسیت تھی کہ ان کے معمولی مشاغل چلنا پھرنا بھی قلم بند کر رکھا ہے۔ پھر اگر وہ موت طبعی سے مرتے تو ممکن نہیں کہ عیسائیوں کو اس کی خبر نہ ہوتی پس سید صاحب کا فرمانا۔ کہ (حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تین چار گھنٹے کے بعد صلیب پر سے اتار لئے گئے تھے۔ اور ہر طرح پر یقین ہوسکتا ہے کہ وہ زندہ تھے رات کو وہ لحد میں سے نکال لئے گئے اور وہ مخفی اپنے مریدوں کی حفاظت میں رہے حواریوں نے ان کو دیکھا اور ملے اور پھر کسی وقت اپنی موت سے مر گئے۔ بلاشبہ ان کو یہودیوں کے خوف سے نہایت مخفی طور سے کسی نامعلوم مقام میں دفن کردیا ہوگا جو اب تک نامعلوم ہے اور یہ مشہور کیا ہوگا کہ وہ آسمان پر چلے گئے۔ ص ٤٥ تارعنکبوت سے بھی ضعیف ہے۔ یہ کبھی ممکن نہیں کہ سچے نبی کے تابعدار جن کی قرآن" میں بھی تعریف آئی ہے ایسے صریح کذب کے مرتکب ہوں اور بے فائدہ اپنے نبی اور اللہ پر افترا کریں کہ وہ آسمان پر چلا گیا۔ حالانکہ نہ گیا ہو۔ علاوہ اس کے اگر مسیح حواریوں کو ملے اور اپنی موت سے مرے تو کیا اتنی دیر میں یہودیوں کو خبر نہ ہوئی کہ وہ اپنی ناکامیابی پر افسوس کرتے اور دوبارہ سعی بلیغ کر کے کامیابی حاصل کرتے۔ پس سید صاحب کے احتمال کو نہ صرف واقعات جھٹلاتے ہیں بلکہ روایت و درایت دونوں اس کی تکذیب کرتی ہیں۔ حاصل یہ کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا اس امر پر متفق ہونا کہ مسیح (علیہ السلام) موت طبعی سے فوت نہیں ہوئے ضرور قابل غور ہے۔ خصوصاً مرزا صاحب قادیانی کے نزدیک تو یہ طریق استدلال بہت ہی صحیح ہے کیونکہ وہ اس طریق سے خود بھی مستدل ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ بائیسویں آیت (وفات مسیح پر یہ ہے کہ فاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کے واقعات پر نظر ڈالو تا اصل حقیقت تم پر منکشف ہوجائے۔ سو جب ہم نے موافق حکم اس آیت کے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور معلوم کرنا چاہا کہ اگر کسی نبی گذشتہ کے آنے کا وعدہ دیا گیا تو وہی آجاتا ہے یا ایسی عبارت کے کچھ اور معنی ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اسی امر متنازعہ فیہ کا ہم شکل ایک مقدمہ حضرت مسیح ابن مریم ( علیہ السلام) آپ ہی فیصل کرچکے ہیں اور ان کے فیصلہ کا ہمارے فیصلہ کے ساتھ اتفاق ہے دیکھو کتاب سلاطین و ملا کی نبی اور انجیل جو ایلیا کا دوبارہ آسمان سے اترنا کس طور پر مسیح نے بیان فرمایا ہے۔“ ازالہ ص ٦١٦ مذکورہ بالاتقریر میں میرزا صاحب نے جو علمیت اور قابلیت کا اظہار کیا ہے وہ تو اہل علم سے مخفی نہیں۔ دعویٰ وفات مسیح ہے اور دلیل عدم رجوع کیا ہی تقریب تام ہے لیکن بلحاظ اس کے کہ میرزا صاحب تو علم لدنی کے عالم ہیں علوم ظاہر یہ مناظرہ وغیرہ ہے بے نصیب ہونا ان پر کوئی الزام عائد نہیں کرسکتا ہاں بطور معارضہ بالمثل جو ہم نے استدلال کیا ہے اس میں بفضلہ تعالیٰ تقریب تام ہے کیونکہ ہمارا دعویٰ عدم وفات بموت طبعی ہے اور (بقول مرزا صاحب) حسب الحکم آیت کریمہ جب ہم نے اہل کتاب سے وفات مسیح بموت طبعی کے متعلق سوال کیا تو دونوں گروہ نے بالاتفاق جواب دیا کہ نہیں۔ اب ہم آیات قرآنی پر غور کرتے ہیں سورۃ مائدہ میں کسی قدر تفصیل سے اس واقعہ کا بیان ہے۔ دونوں فریق یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح مصلوب و مقتول ہوا ہے۔ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللّٰہ الیہ وکان اللّٰہ عزیزاً حکیماً۔ وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شھیداً حالانکہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ سولی دیا لیکن وہ ان کے سامنے مشتبہ کیا گیا جو لوگ اس امر میں (کہ مسیح کو قتل و سولی نہیں ہوئی قرآن کے بیان سے) مخالف ہیں وہ اس واقعہ سے بے خبری میں ہیں۔ اس دعویٰ کی دلیل ان کے پاس نہیں۔ ہاں اٹکلوں اور خیالوں کے تابع ہیں انہوں نے ہرگز اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اپنے پاس اس کو اٹھا لیا اور اللہ غالب ہے حکمت والا۔ اس آیت میں اللہ نے کئی باتیں بیان فرمائی ہیں اول تو صحیح لفظوں میں اس امر کا رد کیا جو یہود و نصاریٰ مسیح کے مصلوب ہونے کا خیالی پلائو پکا رہے تھے دوم اس واقعہ کی اصلیت پر اطلاع دی کہ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا یہاں تک تو ہمارا اور ہمارے مخاطبوں کا اتفاق ہے صرف اختلاف اس میں ہے کہ رفع کے کیا معنی ہیں ہمارے مخاطب کہتے ہیں کہ رفع سے مراد رفع درجات ہے۔ رفع جسم نہیں۔ ہم کہتے ہیں اگر رفع سے مراد رفع درجات ہو تو یہودیوں کے قول کی مخالفت کیا ہوئی جو لفظ بل سے ہونی چاہیے تھی۔ بھلا یہودیوں نے اگر مسیح کو سولی دیا ہو تو رفع درجات نہیں ہوسکتا۔ جب کہ شہدا کی بابت عام طور پر قرآن بلندی مراتب کی خبر دیتا ہے بلکہ غور کیا جاوے تو ان معنی سے وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لَاتَشْعُرُوْنَ یہودیوں کے قول کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اگر مسیح کو واقعی انہوں نے صلیب دیا ہو تو کون نہیں جانتا کہ یہ صلیب مسیح کو صرف دین داری کی وجہ سے ملی ہوگی جس سے ان کے درجات کی بلندی ہر طرح سے ظاہر و باہر ہے پھر قرآن کریم نے ان کے اس قول کی کہ ہم نے مسیح کو سولی دے دیا (بقول آپ کے) یہ کہہ کر ہم نے اس کے درجے بلند کردیئے گویا ایک قسم کی تائید ہے اگر یہی معنی ہیں تو قرآن کا مطلب بالکل اس قصے کے مشابہ ہوجائے گا جو کسی بادشاہ اور اس کے زمانہ کے نیک دل لوگوں کا مشہور ہے ایک بادشاہ سے جاہل فقیروں نے کہا آپ نے فوج کے اخراجات خواہ مخواہ اپنے ذمہ لے رکھے ہیں بادشاہ نے جواب میں کہا کہ دشمن کے خوف کا کیا علاج ہوسکتا ہے انہوں نے کہا ہم دعا کرتے رہیں گے اللہ فضل کرے گا مجال نہیں کوئی دشمن غالب آجائے۔ چنانچہ شامت زدہ بادشاہ اس دائو میں آگیا اور فوج کو یک لخت موقوف کردیا اتفاقاً دشمن نے فوج کشی کر کے جو مناسب تھا کیا جب بادشاہ نے اپنی حالت تباہ دیکھی تو دعا گوئوں کو بلا کر یہ ماجرٰی سنایا کہ دشمن نے تمام ملک لے لیا اگر آج فوج ہوتی تو ایسا کیوں ہوتا دعا گوئوں نے بیک زبان کہا کہ دشمن نے تو ہمارا کچھ نہیں لیا بلکہ ہم نے ان کا دین و ایمان چھینا کیونکہ انہوں نے ہم پر ظلم کیا جس کی وجہ سے وہ بے ایمان ہوئے۔ سو اگر آپ دونوں صاحبوں (سید صاحب و مرزا صاحب) کے معنی سنے جائیں تو قرآن شریف کا بَلْ بھی اسی صوفیکل سوسائٹی کے بلکہ کی طرح ہوجئاے گا کیونکہ آیت کریمہ کے معنی یہ ہوں گے جیسا کوئی کہے کہ حضرت حمزہ (رض) کو کفار نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کا مرتبہ بلند کیا یا پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مشرکین نے مکہ سے نہیں نکالا بلکہ اللہ نے ان کی عزت افزائی کی تو ایسے محاورات سے کون نہیں سمجھتا کہ بجائے اس کے کہ فعل مذکور کی نفی ہو الٹا مع فوائد ثبوت ہوتا ہے علاوہ اس کے آیت مذکورہ کے آگے وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (اللہ غالب ہے حکمت والا) بھی متصل ہے جو ان تراشیدہ معنی سے بالکل بے محل ہے۔ اس لئے کہ اس لفظ کا محل کسی تعجب کا رفع کرنا اور مشکل بات کو سہل بتلانا ہے اور کسی نیک آدمی خصوصاً انبیاء کے مراتب کی رفعت کو کون شخص مشکل اور انہونی جانتا ہے؟ جس کو اس آیت نے آسان بتلایا پس معلوم ہوا کہ اگر رفع درجات کے لیں تو نہ صرف یہی کہ یہودیوں کی تکذیب کے بجائے تصدیق ثابت ہوتی ہے بلکہ ساتھ ہی آیت کے تمام الفاظ بھی درست اور چسپاں نہیں ہوتے جب تک یہ معنی نہ لیں کہ اللہ نے مسیح کو زندہ آسمان پر چڑھا لیا اگر اس پر خیال گذرے کہ کیسے اٹھا لیا اتنے دشمنوں کے ہوتے ہوئے وہ کیونکر صحیح سالم بچ کر چلے گئے تو اس کا جواب اس آیت میں اللہ نے دیا کہ ہم بڑے غالب اور حکمت والے ہیں جس کام کو کرنا چاہیں مجال نہیں کہ کوئی روک سکے ان معنی پر جو اعتراضات بے سود کئے گئے ہیں ان سب کا جواب آخر بحث میں ہم دیں گے پس جب اس آیت میں رفع سے مراد رفع درجات نہیں ہوسکتا تو آیت زیر بحث (اِنِّیْ مُتَوَفِّیَکَ وَرَافِعُکَ) میں بھی رفع سے مراد رفع درجات نہیں کیونکہ اس رفع میں جو وعدہ تھا اسی کو بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ نے پورا کردیا جیسا کہ مرزا صاحب کو مباحثہ دہلی میں یہ مسلم ہے کہ رفعہ اللّٰہ رافعک کے وعدے کا ایفاء عہد ہے پس اس میں بھی وہی معنی ہوں گے جو رفعہ اللہ میں ہیں یعنے بجسد عنصری زندہ اٹھانا اور اگر دوسرے حصہ آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ والے کو دیکھیں تو مطلب اور بھی عمدہ طور سے واضح ہوجاتا ہے۔ اس وضاحت کے لئے ہم اس آیت کا ترجمہ اپنا کیا ہوا نہیں بتلاتے بلکہ خود مرزا صاحب کے خلیفہ ارشد مولوی حکیم نور الدین صاحب کا جن کے علم و فضل کا کل اتباع مرزا بلکہ خود مرزا صاحب کو بھی ناز ہے پیش کرتے ہیں۔ غور سے سنیے۔ نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لادے گا ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ (فصل الخطاب لمقدمۃ اہل الکتاب جلد ٢ ص ٨٠ حاشیہ نمبر ٢ ترجمہ مذکورہ صاف بتلا رہا ہے کہ مرزا صاحب کا مطلب غلط ہے کیونکہ حکیم صاحب نے تمام ضمیریں مسیح کی طرف پھیری ہیں جو شخص قیامت میں گواہ ہوگا اسی کے ساتھ اس کی موت سے پہلے اہل کتاب ایمان لاویں گے اور اس میں تو شک نہیں کہ عیسائیوں پر قیامت کے دن حضرت مسیح ہی گواہ ہوں گے پس مرزا صاحب ہی کی تحریر سے (کیونکہ حکیم صاحب بفحوائے من تو شدم تو من شدی عین مرزا صاحب ہیں) ثابت ہوگیا کہ مسیح (علیہ السلام) فوت نہیں ہوئے۔ ان معنی پر مرزا صاحب نے کئی ایک لایعنی اعتراضات سے تمام کتابیں بھری ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ متوفی کا لفظ جو پہلے ہے اس کا ترجمہ پیچھے کیوں ہوتا ہے کہیں اس تاخیر کو فعل شیطانی کہا ہے کہیں تحریف یہود بتلایا۔ غرض بہت کچھ اس ترجمہ پر جوش مسیحائی ظاہر کیا ہے جو علاوہ اظہار مسیحیت کے لیاقت علی کا بھی مظہر ہے۔ حضرت من ! شرح ملا جامی۔ نورالانوار۔ حسامی۔ توضیح تلویح۔ مختصر معانی۔ مطول وغیرہ کتب نحو اصول اور معانی کو ملاحظہ فرمائیے کہ واو کا لفظ ترتیب کے لئے نہیں ہوتا اگر اس کی مثال قرآن سے چاہیں تو سنئے۔ ایک شخص مال دار کا سال تمام یکم رمضان کے دن ظہر کے وقت پورا ہوا اب بحکم آیت اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ (بقول آپ کے) اس پر فرض ہے کہ پہلے نماز پڑھے اور پھر زکوٰۃ دے اور اگر پہلے زکوٰۃ دے گا تو شاید آپ کے نزدیک گناہ گار ہو بلکہ زکوٰۃ اس کی ادا بھی نہ ہوگی کیا کوئی بھی اس میں آپ کے ساتھ ہے دوسری آیت اَقِیْمُوا ! الصَّلوٰۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے بموجب (بقول آپ کے) ضرور ہے کہ پہلے نماز ادا کرے اس کے بعد شرک چھوڑے اگر پہلے شرک چھوڑے گا تو شاید آپ خفا ہوں گے تیسری آیت اللہ نے فرعون کے جادوگروں کے قول کو ایک جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ بَرِبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ پ ٩ ع ٤ دوسری جگہ بِرَبِّ ھَارُوْنَ وَمُوْسٰی پ ١٦ ع ١٢ آیا ہے جو پہلے کے الٹ ہے حالانکہ جادوگروں نے یقینا ایک ہی طریق سے کہا ہوگا سو اگر وہ طریق اول ہے تو دوسرے میں کذب آئے گا اور اگر دوسرا ہے تو پہلا جھوٹ ہوگا علاوہ اس کے کئی ایک مقام پر انبیاء سابقین کا لاحقین سے پیچھے ذکر کیا ہے چنانچہ کَذٰلِکَ یُوْحِیْٓ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ اللّٰہُ پس جب واو کا لفظ ترتیب کے لئے نہیں ہوتا بلکہ محض جمعیت کے لئے ہے تو متوفی کے معنی رافع سے پیچھے کرلینے میں کون سی قباحت ہوگی بالخصوص جب کہ پہلی آیت سے ہم صعود بجسد عنصری ثابت کر آئے ہیں جس سے دونوں آیتوں کی تطبیق لفظی معنوی بخوبی ہوجاتی ہے تقدم تاخر کی مزید تحقیق منظور ہو تو اتقاق ملاحظہ ہو جس میں چوالیسویں نوع خاص اسی مطلب کے لئے مصنف نے مقرر کی ہے کہ بعض الفاظ مقدم ہوتے ہیں لیکن ترجمہ ان کا مؤخر ہوتا ہے چنانچہ انی متوفیک ورافعک بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اب ہماری تقریر کے مطابق اس آیت کا ترجمہ یہ ہوا۔ کہ ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام) میں ہی تجھ سے یہ سب معاملہ قیامت تک کروں گا “ اللہ کی شان یہ لقب (خلیفہ) ہم نے طبع اول کے وقت دیا تھا جس وقت مرزا صاحب زندہ تھے اور حکیم صاحب خلیفہ نہ تھے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہی خلافت پر متمکن ہیں ایسا فقرہ کہیں مرزا صاحب کی تحریر میں ہوتا تو اللہ جانے کیسی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی بن جاتا۔ منہ رہا یہ کہ پہلے کیا ہوگا اور پیچھے کیا اس کا ذکر نہیں اس کو دوسری آیت نے حل کردیا کہ رفع ہوچکا ہے۔ توفی اب آئندہ ہوگی۔ اگر یہ سوال ہو کہ بیشک پہلی آیت سے رفع بجسد عنصری مراد لینا ہی مناسب ہے اور کہ لفظ واو ترتیب کے لئے بھی نہیں ہوتا مگر آخر کلام اللہ تعالیٰ تو بڑا فصیح بلیغ ہے اس کا کیا سبب ہے؟ کہ متوفی کو پہلے لائے ہیں آخر بلاوجہ تو نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں بلاوجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح کو بتقاضائے بشریت اعدا سے ہر وقت خوف رہتا تھا ان کی تسلی کے لیے اس لفظ کو پہلے کردیا کہ اے عیسیٰ ( علیہ السلام) میں ہی تجھے موت طبعی سے ماروں گا یہ نہ ہوگا کہ تیرے دشمن تجھے کچھ تکلیف پہنچا سکیں اور یہ روشن قرآن کریم کی بلکہ کل فصی کی عموماً ہے کہ کلام تسلی بخش کو پہلے لایا کرتے ہیں چنانچہ آنحضرتﷺ کی تسلی کے لئے عَفَا ! اللّٰہُ عَنْکَ پہلے لا کر لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ کو پیچھے فرمایا۔ تیسری آیت اس مسئلہ (وفات مسیح) پر سید صاحب نے یہ لکھی ہے کہ اذ قال اللّٰہ یعیسٰے ابن مریم ءاَنْتَ قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللّٰہ قال سبحانک مایکون لی ان اقول مالیس لی بحق ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک انک انت علام الغیوب۔ جب اللہ تعالیٰ مسیح سے کہے گا کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا اللہ بنا لو مسیح کہے گا کہ تو پاک ہے شرک سے مجھے لائق نہیں کہ میں ایسی بات منہ پر لائوں جو میرا حق نہ ہو اگر میں نے کہی ہوگی تو جانتا ہے کیونکہ تو میرے اندر کی بات کو بھی جانتا ہے اور میں تیری مخفی بات نہیں جانتا تو غیب دان ہے۔ ماقلت لھم الا ما امرتنی بہ ان اعبدوا اللّٰہ ربی وربکم وکنت علیہم شہیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شیء شھید (المائدہ) میں نے تو ان سے یہی کہا تھا کہ اکیلے اللہ کی جو میرا اور تمہارا رب ہے عبادت کرو اور میں خود جب تک ان میں تھا ان کا نگہبان رہا اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو ہی ان پر نگہبان تھا اور ہر چیز تیرے سامنے ہے۔ اس آیت کے ترجمہ میں قائلین نیچر کا باہمی اختلاف ہے۔ سید صاحب تو اس کے معنی (جب اللہ کہے گا) کرتے ہیں اور مرز صاحب (جب اللہ نے کہا) کہتے ہیں اور مرزا صاحب کے خلیفہ اول مولوی حکیم نور الدین صاحب سید صاحب سے متفق ہیں (دیکھو مقدمہ اہل کتاب ص ١٧٨) غرض مرزا صاحب ماضی اور سید صاحب و حکیم صاحب مضارع مراد لیتے ہیں جس سے مطلب میں بھی کسی قدر فرق آجاتا ہے مگر انصاف سے دیکھیں تو سید صاحب و حکیم صاحب کے معنی صحیح ہیں اس لئے کہ حضرت مسیح کے جواب میں اللہ کی طرف سے جو جواب الجواب دیا جائے گا وہ یہ ظاہر کر رہا ہے یہ سوال و جواب بروز قیامت ہوگا۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ یہی دن ہے کہ سچوں کا سچ ان کو نفع دے گا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا دن جس میں اعمال حسنہ کا حقیقی نفع ہو وہ دن قیامت کا ہے خیر اس تصفیہ کے بعد ہم آیت کے طلب کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے مخاطب کہتے ہیں اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہوگئے کیونکہ وہ خود کہیں گے کہ جب تک میں ان میں تھا میں جانتا ہوں اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو توہی ان کا نگہبان تھا۔ میں کہتا ہوں کہ ہاں بیشک جس وقت (یعنے بروز قیامت) حضرت مسیح یہ کلام کہیں گے اس وقت سے پہلے فوت ہوچکے ہوں گے ہم بھی تو اس امر کے قائل ہیں کہ قرب قیامت دنیا میں تشریف لا کر بنی آدم کی طرح فوت ہوں گے اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اس وقت بھی فوت شدہ ہیں ہاں ہم پر یہ اعتراض ہوگا کہ سوال اللہ تعالیٰ کا مطلب تو یہ تھا کہ تو نے ان کو اپنی الوہیت کی طرف بلا لیا تھا جس کا جواب حضرت مسیح نے یہ دیا اور پھر اس پر بس نہ کی بلکہ یہ بھی کہا کہ جب تک میں ان میں تھا ان کا نگران حال تھا اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی نگہبان تھا اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت مسیح کو عیسائیوں کے شرک کی کوئی خبر نہیں اور یہ جب ہی صحیح ہوسکتا ہے کہ اب حضرت مسیح زندہ نہ ہوں کیونکہ اگر زندہ ہیں اور دنیا میں آویں گے (جیسا کہ مسلمانوں کا عام طور پر عقیدہ ہے) تو عیسائیوں کے کفر و شرک کی ان کو ضرور خبر ہوگی پھر اس سے انکار کیوں کریں گے۔“ اس کا جواب یہ ہے کہ معترض نے کچھ تو دھوکا کھایا اور کچھ اپنی طرف سے حاشیہ لگایا۔ سوال خداوندی جس کا جواب حضرت مسیح کے ذمہ ہے صرف اتنا ہے کہ ” تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ بنا نو جس کے جواب میں حضرت مسیح مع شے زائد جواب دیں گے کہ یا اللہ تو شرک سے پاک ہے جو بات مجھے لائق نہیں میں وہ کیوں کہتا۔ اصل سوال کا جواب یہاں تک آگیا اب آگے اس کام پر صرف اپنی بیزاری کا اظہار کرنا ہے مگر اس میں حضرت کو ان لوگوں کی جنہوں نے جناب والا کی نسبت یہ افترا کیا تھا۔ سفارش بھی کرنی ہے اس لیے دونوں مطلبوں کو حاصل کرنے کو اپنی بیزاری بھی ظاہر کی کہ جب تک میں ان میں تھا ان کا نگہبان تھا (جس سے کسی قدر استحقاق شفاعت ثابت ہوتا ہے) اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی ہر چیز پر نگہبان رہا ہے جیسے وہ ہیں تو جانتا ہے اس سے آگے ان کی ضمناً سفارش بھی کی کہ اگر تو ان کو عذاب کرے تو تیرے بندے ہیں کوئی تجھے روک نہیں سکتا اگر تو ان کو بخشے تو اِنْ تُعَذِّبْھِمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ تو بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے کوئی نہیں جو تیری اس بخشش کو خلاف مصلحت سمجھے۔ اب بتلائیے۔ اگر حضرت مسیح خود ہی ان کی نالائقی کا اعتراف کرلیتے تو ان کی سفارش کیونکر کرتے۔ حالانکہ ان کے شرک کرنے نہ کرنے سے سوال ہی نہ تھا بلکہ سوال صرف اس سے تھا کہ تو نے ان سے کہا تھا کہ مجھے اللہ بنا لو پس جب کہ سوال ہی اس سے نہیں اور اس کا اقرار ان کی سفارش میں خلل انداز بھی ہے تو مسیح کو کیا غرض کہ وہ اس کا اقرار کریں کہ یہ مشرک تھے ہاں کمال یہ ہے کہ انکار بھی نہیں کیا کس طرح کرتے جب کہ جان چکے تھے کہ ان عیسائیوں نے بیشک میری نسبت یہ افترا کیا ہوا ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ جناب مسیح کے اقرار عدم اقرار پر کوئی بات موقوف نہیں معاملہ خدائے غیب دان سے ہے جس کو یہ بھی خبر ہے کہ انہوں نے شرک کیا اور یہ بھی خبر ہے کہ مسیح بھی اس کو جانتا ہے مگر مسیح کو کیا غرض پڑی کہ بلا سوال ایک ایسے جواب کی طرف متوجہ ہوں جس کا ان کو بھی ایک طرح سے امر مطلوب میں مضر ہونے کا اندیشہ ہو کہ وقت سفارش حکم ہو اے مسیح تو خود ہی ان کے شرک کو مانتا ہے اور آپ ہی ان کے حق میں شفاعت کرتا ہے پس اس آیت سے بھی یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیح (علیہ السلام) اس وقت مردہ اور فوت شدہ ہیں کسی طرح ٹھیک نہیں پس حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی وفات کا واقعہ بلحاظ کتب اسلامیہ اور نصرانہو اس طرح ہے کہ حضرت مسیح کی جب چاروں طرف سے دار و گیر شروع ہوئی تو ان کے شاگرد یہود اسکریوطی نے ان کے پکڑوا نے پر رشوت لیلی اور ایک مقام پر آسانی سے پکڑوانا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بحفاظت اٹھا لیا اور ان کی شکل کا حلیہ دوسرے کی مخالف شخض پر ڈال دیا اسی بیان سے آیت شبہ لھم اور قول ابن عباس (رض) کہ فبعث اللّٰہ جبرئیل فادخلہ فی خواختہ فی سقفہا روزنۃ فرفعہ الی السماء من تلک الروزنۃ فالقی اللہ شبہ عیسیٰ علیہ فقتلوہ وصلبوہ (تفسیر معالم مختصرا) اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو مسیح کو پکڑوانے کے لئے مکان کے اندر گیا تھا مسیح ( علیہ السلام) کی شکل پر بنا دیا اور مسیح کو مکان کی چھت کی روزن سے آسمان پر اٹھا لیا (دیکھو تفسیر معالم) اور اناجیل مروجہ بھی منطبق ہوجاتی ہیں اور اگر غور کیا جائے تو روایۃً بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ بموجب بیان اناجیل مروّجہ جن کو سید صاحب بھی معتبر جانتے ہیں (تبیسن الکلام) اور مرزا صاحب تو ان کی طرف رجوع کرنا فرض بتلاتے ہیں (ازالہ ص ٦١٦) ثابت ہے کہ جب اس شخص کو (جس پر مسیح کی شبیہ ڈالی گئی تھی پھانسی دی گئی تو اس نے ایسی گھبراہٹ کا اظہار کیا جو انبیا تو کجا عوام صلحا کی شان سے بھی بعید ہے تکلیف کے وقت چلانا۔ شور مچانا اور اللہ تعالیٰ کی شکایت کرنا (جیسا کہ انجیل مرقس کے حوالہ منقولہ حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے) کون نہیں جانتا کہ صلاحیت اور نبوت سے کو سوں دور ہیں اس قسم کی تکالیف میں ذرا صحابہ کرام پھر اس مسیح نے دوبارہ جا کر دعا مانگی اور کہا کہ اے میرے باپ (یعنی خدا) اگر میرے پینے کے بغیر یہ پیالہ (موت) مجھ سے نہیں گذر سکتا تو خیر تیری مرضی انجیل متی باب ٤٦ درس نمبر ٤٢ اور یسوع (مسیح) نے بڑے شور سے چلا کر جان دی انجیل متی نمبر ٢٧ درس نمبر ٥ اور پون گھنٹہ یسوع بڑی آواز سے چلا کر بولا ایلی ایلی مما سبقتنی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ مرقس باب نمبر ١٥۔ کا حال بھی ملا حظہ کیجئے کیسے استقلال اور بردباری سے جان دے رہے ہیں اور بجائے چوں و چرا کرنے کے شکریہ کرتے ہیں۔ نمونہ کے لئے ذرا خُبَیْبکا حال ہی دیکھئے جس کا قصہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے کہ کس استقلال اور صبر سے جان دیتا ہے اور دشمنوں کے سامنے یہ اشعار پڑھتا ہے۔ ولا ابالی حِیْنَ اقتل مسلما علی ای شق کان فی اللہ مصرعی جب میں مسلمانی میں قتل کیا جائوں تو مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گروں وذٰلک فی ذات الالٰہ وَاِنْ یشا یبارک علیٰ اوصال شلو ممزع یہ میرا مرنا تو اللہ کی راہ میں ہے اگر وہ چاہے گا تو کٹے ہوئے جوڑوں میں بھی برکت کر دے گا کیا حضرت مسیح ( علیہ السلام) اس صحابی سا بھی حوصلہ نہ رکھتے تھے معاذ اللہ وہ اللہ کے مقرب رسول وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ صحابی کی کیا شان کہ حضرت مسیح کی گرو پا کو بھی پہنچے گو اپنے مرتبہ میں کیسا ہی بزرگ ہو وہ معصوم اور اولوالعزم پیغمبر وہ کلمۃ اللہ وہ روح اللہ پھر کیا وجہ کہ اس امتحان مقابلہ میں وہ فیل شدہ ہیں اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ شخص پھانسی شدہ مسیح نہ تھا مگر سرسید کہیں تو مسیح کو سولی پر چڑہاتے ہیں‘ تفسیر احمدی ص ٤٢ جلد ٢) اور جب ان کو ماصَلَبُوْا کا خیال ہوتا ہے تو یہ کہہ کر ” حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) صلیب پر مرے نہ تھے بلکہ ان پر ایسی حالت طاری ہوگئی تھی کہ لوگوں نے ان کو مردہ سمجھا (ص ٤٥) ٹال دیتے ہیں اور کہیں لٰکن شُبِّہَ لَھُمْ کا ترجمہ (لیکن ان پر صلیب پر مار ڈالنے کی شبیہ کردی گئی“ ص ١٦٥ جلد ٢ کہہ کر آگے چل دیئے ہیں لیکن چلا کہ جان دینے پر سب کچھ بھول جاتے ہیں کیوں نہ ہوجان دینے کا موقع ایسا ہی ہے کہ سب بھول جاتے ہیں۔ رہا اصل اعتراض کہ مسیح کی شکل دوسرے پر کس طرح ہوگئی یہ تو سپر نیچرل (خلاف عادت) ہے جو سید صاحب کا قدیمی ٹوٹا پھوٹا ہتھیار ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ جس اللہ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی لکڑی کی شکل بدل کر سانپ اور سانپ سے لکڑی بنا دی وہ مسیح کی سی شکل والا دوسرے کو بھی بنا سکتا ہے۔ جو اللہ مرغی انڈا دیتی کو مرغا انڈے دلانے والا بناتا ہے وہ ایک شکل کے دو آدمی یا ایک کی شکل دوسرے کو بھی دے سکتا ہے۔ گو ہماری معروضہ بالا تقریر سے کل مسئلہ حیات و ممات مسیح بالکل صاف ہے مگر بنظر استحسان مرزا صاحب کی پیش کردہ تیس آیات کا مفصل جواب بھی دیتے ہیں۔ مرزا صاحب نے حسب عادت شریفہ اس دعویٰ کو اس قدر بڑھایا ہے کہ رائی سے ہمالہ کی صورت دکھائی ہے چنانچہ کھینچ تان کر مجموعہ تیس آیات کا اس دعویٰ پر پیش کیا ہے مگر میرے خیال میں اگر ایسی ہی آیات کو جمع کرنا تھا تو چالیس پچاس بھی ہوسکتی تھیں بہر حال جو کچھ مرزا صاحب سے ہوسکا وہ یہی مجموعہ تیس آیات کا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔ مرزا صاحب کی تقریر حسب عادت طوالت سے بھری ہونے کی وجہ سے بہت سی جگہ چاہتی ہے اس لئے ہم ان کے مطلب کو خلاصہ کر کے لکھیں گے جو اصل سے بالکل مطابق ہوگا جس کو شبہ ہو وہ اصل سے مقابلہ کرلے۔ (١) پہلی آیت یَا عِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ ازالہ اواہم ص ٥٩٨ اس آیت کا ترجمہ ہی کر کے چھوڑ دیا جو ہم نے کردیا ہے جس پر مفصل بحث ہوچکی ہے۔ (٢) دوسری آیت بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ رفع سے مراد باعزت موت ہے جیسے کہ حضرت ادریس کے لئے وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا ص ٥٩٩ اس کی بحث بھی مفصل ہوچکی ہے مزید یہ ہے کہ حضرت مسیح والا بَلْ یہاں نہیں۔ (٣) تیسری آیت فَلَمَّا تَوَفَیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ توفی کا لفظ موت کے لئے ہے پس ثابت ہوا کہ مسیح فوت ہوچکے ہیں ص ٦٠٠ اس کی بحث بھی ہمارے مضمون سابق میں آگئی ہے۔ (٤) چوتھی آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ اور ہم (مرزا) اسی رسالہ میں اس کی تفسیر بیان کرچکے ہیں۔ ص ٦٠٢ اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ ” تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے مسیح کی موت طبعی پر ایمان لے آتے ہیں اور مصلوب ہونے کے اعتقاد سے پھرجاتے ہیں۔ “ اس آیت کے پیش کرنے میں تو مرزا صاحب نے کمال کر دکھایا جس آیت سے مرزا جی کے مخالف حیات مسیح کا ثبوت پیش کرتے ہیں مرزا جی نے جھٹ سے اسے اپنے قبضہ میں کرنا چاہا۔ ہم اس آیت پر مفصل بحث نہیں کرتے صرف مرزا صاحب کے خلیفہ راشد حکیم نور الدین صاحب کا ترجمہ جو ہم نے بصفحہ (٣٢) نقل کیا ہے پیش کردیتے ہیں اس بارے میں ہمارے وہی حکم ہیں ناظرین صفحہ مذکور پر تفسیر مذکور میں نظر ڈالیں۔ (٥) پانچویں آیت ہے مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلٌ وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَاْکُلَان الطُّعَامَ اس آیت میں ماں بیٹے (مریم و مسیح کے ذکر میں ” کھانا کھاتے تھے“ کہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب نہیں کھاتے اور چونکہ بغیر کھانا کھانے کے زندگی محال ہے اس لئے ضرور ہے کہ مسیح فوت ہوگئے ہیں ص ٦٠٣ “ مرزا جی ! میدان مناظرہ مریدوں کا حلقہ نہیں کہ ” بیائد گفت اینک ماہ وپردیں“ کا مصداق ہو۔ یہ تو ان کی حالت مشہودہ مسلمہ فریقین سے جو دنیا میں ان پر آرہی تھی استدلال ہے اسے اس سے کیا علاقہ کہ اب وہ نہیں کھاتے۔ یہ کون سی دلالت ہے عبارۃ النص ہے۔ یا اشارۃ النص۔ دلالت النص ہے یا اقتضاء النص۔ اگرچہ آپ اپنے مولوی صاحبان سے دریافت فرما لیں کہ ” کانا“ کے لفظ سے زمانہ حال کی نفی نہیں ہوتی۔ لیجئے ہم آپ کی خاطر مانے لیتے ہیں کہ بیشک حضرت مسیح اس وقت کھانا نہیں کھاتے تو کیا ان کی زندگی محال ہے کیا حضرت آدم ( علیہ السلام) دنیا میں آنے سے پہلے جنت میں کھانا کھاتے تھے حالانکہ آپ کے نزدیک تو جنت میں صرف روحانی لذائذ ہیں نہ کہ جسمانی چنانچہ آپ کی تقریر جلسہ مذاہب لاہور مندرجہ رپورٹ اس کی مظہر ہے۔ خیر یہ تو الزامی جواب ہے حقیقی جواب یہ ہے کہ شرعی طور پر بغیر طعام زندگی گزارنے کا ثبوت ملتا ہے کیا آپ کو وہ حدیث یاد نہیں جس میں آنحضرتﷺ نے وصال صیام سے منع فرمایا تو صحابہ کے عرض کرنے پر کہ حضرت ! آپ کیوں وصال کیا کرتے ہیں آپ نے فرمایا تھا اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ یعنی میں اپنے رب کے پاس رات گذراتا ہوں وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور پانی پلاتا ہے تم میرے جیسے نہیں “ اگر یہ حقیقی کھانا تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال صیام ہی نہیں تھا حالانکہ اسی کے کرنے کی دلیل بیان ہے۔ پھر آپ کا مسیح کی بابت مخول کرنا کہ اللہ کے پاس کیا کھاتا ہے تو پائخانہ کہاں پھرتا ہے وغیرہ وغیرہ قابل مخول ہے یا نہیں۔ کیا آپ نے اصحاب کہف کا قصہ بھی قرآن شریف میں نہیں لکھا کہ تین سو نو برس غار میں بے خبر سوتے رہے اور زندہ رہے اگر آپ کو ان کی موجودہ زندگی میں شبہ ہے جیسا ص ٦٠٥ ازالہ سے مفہوم ہوتا ہے تو کیا فَلَبِثُوْا فِیْ کَھْفِھِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا بھی شبہ ہے جو نص قطعی ہے اگر کہیں کہ وہ تین سو نو برس بے طعام نہ تھے بلکہ کھاتے پیتے تھے تو ان کے باہمی سوالات کا کیا مطلب ہے جو انہوں نے بعد بیداری آپس میں کئے تھے کہ۔ قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوم او بعض یوم قالوا ربکم اعلم بما لبثتم (کھف) ” ایک ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ تم کتنی مدت ٹھیرے ہو بولے کہ ایک دن یا کم (بعد غور و فکر بولے کہ اللہ خوب جانتا ہے جتنے ٹھیرے ہو۔ “ اگر وہ غذا کھاتے پیتے تو ان کو اپنے ٹھیرنے کا بھی وقت نہ معلوم ہوتا جس کی مدت اللہ نے تین سو نو برس بتلا دی ہے کیا آپ نے وہ حدیث بھی نہیں دیکھی جو مشکوٰۃ کے باب علامات الساعۃ کی دوسری فصل میں ہے جس کا مضمون ہے کہ تسبیح تہلیل بھی بندوں کی غذا کا کام دے سکتی ہیں پس جب تک ہمارے سوالات کو نہ اٹھائیں اس آیت کا پیش کرنا آپ کا حق نہیں ودونہ خرط القتاد۔ (٦) چھٹی آیت ہے وَمَا جَعَلْنَاھُمْ جَسَدًا لَّایَاکُلُوْنَ الطَّعَام سنت اللہ ہے کہ کوئی جسم خاکی بغیر طعام زندہ نہیں رہ سکتا۔ (ازالہ ص ٦٠٤) اس کا جواب آیت سابقہ میں آگیا علاوہ اس کے اس آیت کا مطلب بالکل صاف ہے۔ اللہ فرماتا ہے ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا کہ کھانا نہ کھائیں یعنی کھانے کو چھوئیں نہیں۔ یہ مشرکین عرب کا جواب ہے جو کہا کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں پھرتا ہے جس کے جواب میں ارشاد پہنچا۔ مالھذا الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق۔ کہ پہلے نبیوں کو کبھی ہم نے ایسا نہ بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ ایسا کوئی بشر نہیں ہوا جو کھانا نہ کھاتا ہو۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ کھاتے رہیں کیا پیغمبرﷺ روزہ وصال میں کئی کئی روز جو کھانا ترک فرماتے تھے تو وہ اس وقت وہ جسم نہ تھے؟ مرزا جی ! مطلقہ عامہ کے ثبوت سے وائمہ مطلقہ لازم نہیں آتا اگر نہ سمجھے ہوں تو کسی سے پوچھ لیجئے۔ (٧) ” ساتویں آیت یہ ہے {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ مَاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ} یعنی محمد ﷺ سے پہلے سب نبی فوت ہوگئے ص ٦٠٦ “ شاباش مرزا صاحب باوجود دعویٰ الہام وغیرہ وغیرہ اتنی چالاکی کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر خدا نخواستہ گرخشمگین ہوتے تو کیا کرتے کیا ہی عمدہ ترجمہ آپ نے گھڑ لیا کہ فوت ہوگئے جناب کے مرید تو سن کر علماء کو کو ستے ہوں گے کہ صاف آیت میں لکھا ہے۔ ” سب نبی فوت ہوگئے“ تو پھر جو علماء نہیں مانتے بیشک یہودیوں کی طرح ان کے دل سیاہ ہیں بیشک ایسے ہیں ویسے ہیں بیشک ان کے پیچھے نماز درست نہیں ان سے سلام علیکم ناجائز ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ پیغمبر اللہ کی پیشگوئی ١ ؎ کا ظہور ہو رہا ہے بھلا مرزا جی ! ” فوت ہوگئے“ کس لفظ کا ترجمہ ہے شاید ” خَلَتْ“ کی طرف توجہ سامی لگ رہی ہے جس کے معنی گذرنے‘ جانے‘ خالی کرنے وغیرہ کے ہیں جو ان تمام معانی میں مستعمل ہوا ہے وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیَاطِیْنِہِمْ۔ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ۔ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ۔ پس آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ تجھ سے پہلے کل نبی اپنے اپنے وقت میں کام کر کے چلے گئے جیسے کوئی کہے کہ موجودہ لفٹنٹ گورنر سے پہلے کئی لفٹنٹ گذر گئے تو کیا اس سے یہی مفہوم ہے کہ سب مر گئے پس اسی تقریر سے نویں آیت تِلْکَ اُمَّۃٌّ قَدْ خَلَتْ کا جواب بھی آگیا کیونکہ آپ وہاں بھی خلا ہی میں تیر رہے ہیں۔ (٨) آٹھویں آیت ہے وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاِنْ مِتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ۔ کوئی بشر ہمیشہ زندہ نہیں رہا اس لئے مسیح بھی نہائت بوڑھے ہو کر فوت ہوگئے ہوں گے ص ٦٠٦ کیوں نہ ہوں؟ دو اور دو چار روٹیاں“ کی مثال اسے ہی کہیں۔ حضرت ! آیت کا مطلب تو بالکل صاف ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لئے ہمیشگی نہیں کی بھلا اگر تو مر گیا تو کیا یہ کافر ہمیشہ رہیں گے ہرگز نہیں۔ بتلائیں کس کے مخالف ہے کیا ہم مسیح کو ہمیشہ زندہ رہنے والا مانتے ہیں کیا دائمہ مطلقہ کے سلب سے متعلقہ عامہ مسلوب ہوجاتا ہے یہ نئی منطق ہے بیشک آیت کا مطلب بالکل صاف ہے لیکن جب خود غرض کے قبضے میں آپھنسے تو کیا کرے۔ (١٠) دسویں آیت وَاَوْصَانِیْ بالصَّلوٰۃِ وَالزَّکوٰۃِ مَادُمْتُ حَیًّا ص ١٦٠٧ اس آیت سے بھی معلوم نہیں مرزا صاحب کیا مطلب لے رہے ہیں شاید یہ مطلب ہے کہ زندگی تک تو زکوٰۃ کا حکم ہے اگر وہ اب زندہ ہیں تو زکوٰۃ کس کو دیتے ہوں گے۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح فوت ہوگئے۔ چہ خوش ! ہمیں بار بار وہی دو اور دو چار روٹیاں والی مثال یاد آتی ہے۔ اجی حضرت آپ یہ تو بتلا دیں کہ جتنے روز مسیح دنیا میں رہے تھے زکوٰۃ کس کو دیتے تھے مرزا صاحب غلطی تو ہر ایک انسان سے ممکن ہے لیکن ایسی غلطی کہ ” بدوز دطمع دیدہ ہوشمند“ پناہ باللہ۔ کیا زکوٰۃ کے لئے اہل و اسباب زائد عن الحاجت ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں تو پس جب کہ ان کے پاس مال دنیاوی موجود ہی نہیں تو زکوٰۃ کیسے دیں اور کس کو دیں۔ اس آیت میں مرزا جی نے ایک عجیب بات بھی لکھی ہے جس کو ہم بعینہ نقل کرتے ہیں۔ ” اس سے بھی ظاہر ہے کہ انجیل کے طریق نماز پڑھنے کے لئے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو وصیت کی گئی تھی اور وہ آسمان پر عیسائیوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) ان کی نماز کی حالت میں ان کے پاس یونہی پڑے رہتے ہیں مردے جو ہوئے اور جب دنیا میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) آویں گے تو برخلاف اس وصیت کے امتی بن کر مسلمانوں کی طرح نماز پڑھیں گے۔“ ص ٦٠٧ مرزا صاحب نے اس جگہ یہ بڑا استحالہ قائم کیا ہے کہ حضرت مسیح دو طرح کی نماز کس طرح پڑھیں گے کاش بتلایا ہوتا کہ عیسائیوں کی نماز ہاں اصل عیسائی نماز کس طرح کی ہے اور وہ کتنے حصے میں اسلامی نماز سے مخالف ہے۔ کیا آپ نے مسیح کی والدہ کی بابت فرمان ربانی نہیں سنا یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ بتلائیے آپ کی نماز سے یہ نماز کتنی کچھ مخالف ہے۔ ہاں آپ نے موجودہ عیسائیوں کی نماز دیکھی ہوگی۔ جس میں تثلیث کی پرستش بھی کرتے ہیں بیشک ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت مسیح اس نماز سے مخالف نماز پڑھیں گے بلکہ اس نماز کے مٹانے کے لئے تشریف لادیں گے چنانچہ آپ بھی براہین جلد رابع ص ٤٩٩ میں تسلیم کرتے ہیں معلوم نہیں مرزا صاحب کو ایسی باتوں سے کیا فائدہ ہوگا چونکہ علم لدنی کے متعلم ہیں اس لئے بقول صوفیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غلطی ممکن ہے۔ (١١) گیا رہویں آیت والسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثْ حَیًّا اس آیت میں مسیح کے تین واقعات ولادت موت اور بعثت کے ایام کئے گئے ہیں یوم رفع نہیں گنا اس لئے وہ کوئی جدا نہیں بلکہ بذریعہ موت ہی ہوا“ ص ٦٠٨ مرزا جی کی قوت استنباط یہ بہت صحیح ہے حالانکہ بوجہ بڑھاپے اور بیماری کے زرد رنگ میں مسیح کے مشابہ بھی بنا سکتے ہیں۔ خیر اس سے ہمیں بحث نہیں مگر مرزا صاحب یہ تو بتلا دیں کہ عدم ذکر سے عدم شے لازم آتا ہے؟ انسان کے لئے تین ہی واقعات عام طور پیش آتے ہیں اور یہ تینوں محل خطر ہیں موت اور قیامت کے دن کا خطرناک ہونا ظاہر البتہ پیدائش کے دن کا خطرناک ہونا جس کی طرف مسیح نے اشارہ کیا ہے دو وجہ سے ہے ایک تو اس حدیث کی وجہ سے جس کا مضمون ہے کہ مَامِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا وَیَمَسُّہُ الشَّیْطَانُ اِلَّا مَرْیَمُ وَاِبْنُھَا (اوکما قال) ہر ایک بچہ کو شیطان وقت ولادت چھوتا ہے سوا مسیح اور اس کی ماں کے کہ ان دونوں کو نہ چھوا تھا اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ولادت کا وقت بھی ایک خطرناک وقت ہے جس کی سلامتی کی طرف حضرت مسیح نے اشارہ کیا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ یہودی حضرت مسیح کی ولادت ناجائز بتلاتے تھے اور ناجائز ولادت والے کو اللہ کی بادشاہت میں ذلیل سمجھتے ! تھے اس لئے مسیح نے ایسے واقعات کا جو سب لوگوں کو پیش آنے والے ہیں جن کے وقوع کا سب کو یقین ہے ذکر کیا اور رفع بجسد عنصری کا ذکر نہیں کیا کہ جو پہلے سے منکر ہیں کہیں اور بھی زیادہ نہ بگڑیں علاوہ ان توجیہات کے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح کو یہ کلام بولتے وقت اپنے رفع بجسد عنصری کا علم ہی نہ تھی کیونکہ جب تک اللہ کریم کوئی وعدہ نہ کرے یا کوئی خبر نہ بتلادے نبی ہو یا رسول بلکہ افضل الرسل (علیہم السلام) کو بھی خبر نہیں ہوتی لایُحِیْطُوُن" بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَاشَآئَ کو پڑھ لو۔ (١٢) بارھویں آیت وَمِنْکُمْ مَّنْ یُتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان عمر طبعی تک پہنچ کر مر جاتا ہے پس مسیح بھی جو عمر طبعی تک پہنچ گئے ہیں ضرور فوت ہوگئے ہوں گے ص ٦٠٨ عجیب نئی منطق ہے۔ مرزا صاحب مسیح عمر طبعی کو دنیا ہی میں پہونچے ہوئے تھے یا اب پہونچے ہوں گے اگر دنیا ہی میں پہنچے تھے تو کیا ثبوت؟ حالانکہ روایات سے جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں میں مرقوم ہیں صاف مفہوم ہے کہ حضرت مسیح کی عمر بوقت رفع تیتیس ٣٣ سال تھی اور اگر بعد رفع عمر طبعی کو پہنچے ہیں تو غنیمت ہے کہ آپ نے ان کا رفع بجسدہ تو مانا بعد رفع بجسدہ کے موت کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے دیجئے ودونہ خرط القتاد علاوہ اس کے عمر طبعی بھی تو مختلف ہے ایک عمر طبعی آپ کی ہے اور ایک حضرت نوح ( علیہ السلام) کی تھی جن کے صرف وعظ کا زمانہ ساڑھے نو سو برس کا قرآن کریم میں مذکور ہے تو کل عمر بلوغت کے سات اور بعد طوفان ملا کر دیکھیں تو اور بھی بڑھ جاتی ہے اور قصص میں بعض نبیوں کی عمر چودہ سو برس تک بھی پہونچتی ہے۔ نص قرآنی سے تو آپ کو انکار نہ ہوگا۔ پھر بتلادیں کہ آیت موصوفہ سے آپ کے دعویٰ کو کہاں تک تقویت یا تائید ہوتی ہے کیا ممکن نہیں کہ حضرت مسیح کی عمر طبعی کا اندازہ کوئی غیر محدود زمانہ ہو جس کی مثال دنیا میں آج تک کیی فرد بشر پر نہ آئی ہو۔ اس جگہ ایک لطیفہ بھی قابل بیان ہے جو مرزا جی کی تحریر سے نہیں بلکہ ان کے بعض مریدوں کی زبان سے سنا گیا ہے کہ حضرت مسیح کو آج تک زندہ سمجھیں تو حی قیوم کی صفت اللہ عالم الغیب میں شریک ہوجاتا ہے اور شرک تو کسی طرح اسلام میں درست نہیں پس ثابت ہوا کہ مسیح بھی کسی طرح زندہ نہیں رہ سکتے۔ کسی شہدے کو مولوی صاحب نے نماز کی تاکید کی تھی شہدا بولا کہ آپ نے دعوت کی تھی تو نمک زائد نہیں ڈالا تھا؟ مولوی صاحب نے فرمایا اس بات کو یہاں کیا علاقہ؟ شہدا بولا کہ بات سے بات نکل آتی ہے سو یہی حال ہماری اس الہامی جماعت کا ہے مسیح کی موت کے پیچھے ایسے پڑے ہیں کہ اگر ان کے لئے ایک سکینڈ کا اختیار بھی مل جائے تو سب سے پہلے جو کام ان سے سرزد ہو وہ یہی ہو کہ حضرت مسیح کو فوت کریں لیکن نہیں جانتے وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ بھلا حضرات اگر درازی عمر کی وجہ سے کوئی جاندار اللہ عالم الغیب کا شریک ہی ہوجاتا ہے تو جس کی عمر مسیح سے ہزارہا سال پہلے اور ہزارہا سال بعد تک ہوگی اگر اپنے بزرگ سرسید کی طرح شیطان قوائے حیوانیہ کو جانتے ہو تو قرآن کریم میں غور کرو قال فَانْظِرُنِیْ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔ (١٣) تیرہویں آیت ہے وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّوَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم ! خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا ص ٦٠٩ مرزا جی دوسری آیت پر بھی غور کرلیا ہوتا جس میں مثل اس آیت کے لَکُمْ آیا ہوا ہے وَلَکُمْ"فِیْھَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ اَفَلَا تَشْکُرُوْنَ اگر اس آیت سے جس خاکی کا آسمان پر جانا منع معلوم ہوتا ہے تو اس آیت سے سوا چار پایوں کے دودھ اور منافع کے اور چیزوں کا دودھ اور منافع بلکہ تمام دنیا کے پانی پینے بھی منع ہوگئے کیونکہ اگر اس آیت میں مستقر مبتدا موخر ہے تو اس میں مَنَافِعُ اور مَشَارِبُ وہی حکم رکھتا ہے حالانکہ ہم تمام دنیا کے کنؤں کا پانی پیتے ہیں اور تمام چیزوں سے نفع لیتے ہیں کوئی چار پائیوں کی خصوصیت نہیں بتلاویں تو (بقول آپ کے) یہ دجال کا گدھا ریل گاڑی کون سے چار پایوں کا نفع ہے حالانکہ بقول آپ کے آیت میں ہے کہ سوا چار پایوں کے اور کسی چیز میں ہمارا نفع نہیں اور نہ ہمارے بچے کسی جاندار کا خواہ وہ بچے کی والدہ ہو دودھ پی سکتے ہیں کیونکہ مشارب کا لفظ اس سے روکتا ہے اگر یہی معنی ہیں تو میں نہیں جانتا کہ اس آیت سے (نعوذ باللہ) کوئی کلام غلطی میں مقابلہ کرسکے۔ مرزا صاحب نے اس آیت کی تقریر میں کچھ علمیت کے جوہر بھی دکھائے ہیں آپ فرماتے ہیں۔ ” کیونکہ لَکُمٗ جو اس جگہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اس بات پر بصراحت دلالت کر رہا ہے کہ جسم خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا بلکہ زمین سے نکلا اور زمین میں ہی رہے گا اور زمین میں ہی داخل ہوگا ص ٦٠٩ “ مرزا صاحب ! اس جگہ تو آپ نے ایک پرانا قصہ ہم کو یاد دلایا جس کو ہم آپ کے خاندان نیچر یہ کے بانی سرسید مرحوم کے لئے کسی جگہ لکھ آئے ہیں کہ ایک دفعہ بادشاہ دہلی مدرسہ عربی کا امتحان لینے گئے ایک طالب علم سے پوچھا کہ اَلْحَمْدُ لِوَلِیِّہٖ میں واو کیسا ہے طالب علم جھٹ سے بولا بندہ نواز ! عطف کا بادشاہ نے کہا یہ بھی لائق انعام ہے کیونکہ اتنا تو جانتا ہے کہ واو عطف کا بھی ہوتا ہے“ ہم بھی مرزا صاحب کو قابل انعام سمجھتے ہیں اور وقعی مرزا صاحب کی تعریف کرتے ہیں کہ آنجناب حصر کو جانتے ہیں لیکن بڑے ادب سے عرض ہے کہ اگر لکم فائدہ حصر کا دیتا ہے تو غالباً یہ حصر مسند الیہ (مُسْتَقَرٌّ) کا مسند میں ہوگا جیسا کہ مختصر معانی اور مطول سے مفہوم ہوتا ہے تو بتلائیے کہ اس حصر کا مطلب کیا ہوگا اور آیت کے معنی کیا بنیں گے وہی جو مختصر معانی اور مطول میں لکھے ہیں لَّافِیْھَا غَوْلٌ بخلاف خمور الدنیا فان فیھا غولا یعنی تمہارے لئے زمین مستقر (جگہ) ہے نہ کہ کسی اور جانور کے لئے بھلا اس حصر سے جسم خاکی کا آسمان پر جانا کیونکر منع ہوا ہاں یہ تو بیشک ثابت ہوا کہ دنیا میں سوائے انسان کے جو لکم کے مخاطب ہیں کسی جاندار کی جگہ نہیں۔ یہ معنی قطع نظر اس سے کہ واقع میں صحیح ہوں یا غلط آپ کے دعویٰ (جسم خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا) سے کیا علاقہ انی ھٰذا من ذاک۔ ہاں اگر آپ کے معنی مراد ہوتے تو کلام خداوندی میں فی الارض مقدم ہوتا یعنی آیت یوں ہوتی وفی الارض مستقر ومتاع الٰی حین ایسی اصلاح قرآن شریف میں کرنا کون نہیں جانتا کہ اَتُنَبِّئُوْنَ#َ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمَآئِ وَلَا فِی الْاَرْضِ کے مصداق ہے۔ رہی یہ بحث کہ گو حصر مسند کا نہیں لیکن یہ تو معلوم ہوا کہ زمین میں مستقر ہے پس آسمان کا مستقر ہونا اس کے خلاف ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب حصر نہیں تو خلاف بھی نہیں۔ نہیں تو بتلا دیں کہ مسلمان جو سب محمد رسول اللّٰہ پڑھتے ہیں جس کا ترجمہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو کیا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) رسول نہیں صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی رسول ہیں۔ پس جس طرح کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنے سے موسیٰ ( علیہ السلام) رسول اللہ کی نفی نہیں ہوتی اسی طرح فی الارض مستقر کہنے سے فی السماء مستقر کی نفی لازم نہیں۔ علاوہ اس کے آسمان میں تو مستقرہی نہیں خصوصاً لکم کے مخاطبین کا جو تمام نبی انسان ہیں اگر مسیح چند روز چلے گئے۔ اول تو عارضی ہے۔ دوم وہ ایک فرد مخصوص ہیں مَا من عام الاوقد خص منہ البعض کو یاد کرو ایسے استدلالات میں ہاتھ پائوں مارنے سے بجز اس کے کہ علماء میں ہنسی ہو اور کیا فائدہ؟ (١٤) چودھویں آیت یہ ہے ” وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ یعنی درازی عمر میں حواس اور عقل زائل ہوجاتی ہے اگر مسیح اب تک زندہ ہوں تو ان کی عقل میں فرق آگیا ہوگا جس سے یقینی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدت سے مر گئے ہوں گے ص ٦١٠ مرزا صاحب چونکہ علم لدنی کے متعلم تھے اس لئے بیچارے علوم ظاہر یہ کی اصطلاحات بدیعہ سے بالکل نہ واقف ہوں تو ان کی ذات ستودہ صفات میں کوئی نقص نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا جی کے کان مبارک ” تقریب تام“ سے جو علم مناظرہ میں اہم اصول ہے کبھی آشنا نہیں ہوئے مرزا صاحب کا دعویٰ ممات مسیح اور دلیل لو سُلّم نقصان عقل یہیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ مرزا صاحب اگر کوئی شخص ستر ٧٠ برس کی عمر سے (جس کو آپ انتیسویں آیت میں امت محمدیہ کے لئے محدود کرتے ہیں) متجاوز ہوگیا جیسے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب مرحوم گنج مراد آبادی یا قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی یا مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی جن میں سے بعض صاحب سو اور بعض سو سے بھی متجاوز تھے کیا آپ کے نزدیک ان کا جنازہ بغیر روح نکلے ہی درست ہے کیونکہ آپ کی دلیل کا مقدمہ تو ثابت ہے کہ عمر درازی موت کو متلزم ہے پھر مدعا کیوں ثابت نہیں آئندہ کو آپ کے خاندان میں سے جو شخص ستر برس سے متجاوز ہو تو بغیر نکلے روح کے اس کو میت قرار دے کر قبر میں داخل کردیا کریں پھر دیکھیں نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ افسوس مرزا صاحب کو یہ خبر نہیں یا جان بوجھ کر تجاہل عارفانہ کرتے ہیں کہ عمر درازی کو اگر کچھ لازم ہے تو نکوس لازم ہے جو خود زندگی کو چاہتا ہے مردہ کی بابت نکوس فی الخلق کون کہے گا نکوس کے معنی اوندھا کرنے کے ہیں مطلب آیت کا بالکل واضع ہے کہ جس کی عمر دراز ہوتی ہے اس کی خلقت اور عادت پیرانہ سالی میں جوانی سے مغائر بچپن کی سی ہوجاتی ہے بالکل درست ہے صدق اللّٰہ وصدق رسولہ لیکن اس کو موت خصوصاً مسیح کی موت سے کیا علاقہ اگر آپ کے نزدیک ستر برس سے متجاوز پر نکوس فی الخلق ضروری ہے تو حضرت نوح ( علیہ السلام) تو آپ کے نزدیک تمام تبلیغ نکوس کے زمانہ بلکہ موت میں کرتے رہے ہوں گے یا للعجب۔ (١٥) پندرھویں آیت یہ ہے اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃٌ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّشَیْبَۃً اس آیت سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ انسان کی عمر پر اثر کرتا ہے یہاں تک کہ پیر فوت ہوجاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔ ص ٦١٠ آمنا وصدقنا بیشک اثر کرتا ہے مگر اس کی حد مختلف ہے ایک حد بقول آپ کے ساٹھ ستر برس ہے دوسری بقول اللہ تعالیٰ کے عمر نوحی ہے جب تک آپ مسیح کے لئے حد نہ لگا دیں اس آیت کو پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے اعمارا متی بین الستین کا جواب آگے آتا ہے۔ (١٦) سولہویں آیت اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہٗ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَام یعنی کھیتی کی طرح انسان بعد کمال زوال کی طرف رخ کرتا ہے کیا اس قانون سے مسیح باہر رکھا گیا ہے“ ص ٦١١ مرزا صاحب کل بنی نوع انسان کی اگر یہ حالت ہے تو بتلا دیں کہ ایک بچہ جو ایک دن کا ہو کر مر جاتا ہے اس کا وہی کمال ہے؟ دوسرا آپ کی طرح بوڑھا ہو کر اس کے لئے وہی کمال ہے ایک ایسا ہوتا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کی طرح ہزار سال تک بھی اس کمال کو نہیں پہنچتا ہے پس اسی تفاوت سے اگر مسیح کو بھی وہ کمال جس کے بعد ان کو زوال آنا ہے (جو بقول آپ کے موت کا مترادف ہے) ابھی تک نہ آیا ہو تو کیا محال ہے فاعتبروا یا اولی الابصار۔ (١٧) سترھویں آیت ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ تم اپنا کمال پورا کرنے کے بعد زوال کی طرف میل کرتے ہیں“ ص ٦١١ بکشر سچ ہے اس کا جواب آیت سابقہ کی تقریر میں پڑھو۔ (١٨) اٹھارھویں آیت اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مَخْتِلَفًا اَلْوَانُہٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ جَعَلَہْ حُطَامًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَاب انسان کھیتی کی طرح اپنی عمر کو پورا کرکے مر جاتا۔ ص ٦١٢ بالکل سچ ہے لیکن عمریں مختلف ہیں۔ (١٩) انیسویں آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا اِنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمُشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ کوئی انسان بغیر کھانے پینے کے زندہ نہیں رہ سکتا ص ٦١٢ اس کا جواب پانچویں آیت کی تقریر میں ملاحظہ ہو۔ (٢٠) بیسویں آیت یہ ہے والَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَایَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ۔ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّاَنَ یُبْعَثُوْنَ اس آیت میں مصنوعی معبودوں کی موت کی خبر دی گئی ہے مسیح ٢! بھی عیسائیوں کے مصنوعی معبود ہیں پس ضرور ہے کہ وہ بھی فوت ہوگئے ہوں ص ٦١٢ “ مرزا صاحب نے اس آیت کے لفظ ” اموات“ سے استدلال کیا ہے مگر اس امر پر غور نہیں فرمایا کہ اموات جمع میت کی ہے جو خود آنحضرتﷺ اور کفار مکہ کے حق میں عین زندگی میں وارد ہوا ہے غور سے پڑھو اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتٰوْنَ کیا مرزا صاحب ! اس آیت کے اترتے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی وامی) اور کفار مکہ سب کے سب فوت شدہ تھے؟ تو پھر اس سے بعد کی آیتیں بلکہ خود یہی آیت کس پر نازل ہوئی تھی؟ اور اگر فوت شدہ نہ تھے تو کیوں نہ تھے؟ حالانکہ میت کا لفظ بقول آپ کے موت سابقہ چاہتاوہ ممکنات ہالک الذات ہیں نہ دائم الحیات حالانکہ معبودیت کے لئے غیر ہالک الذات دائم الحیات ہونا چاہیے۔ پس علیٰ طریق ہے۔ مرزا صاحب تو یونہی ادھر ادھر جاتے ہیں آیت کا مطلب بالکل واضح ہے یعنی اللہ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ مشرک پکارتے ہیں البرہان آیت کے مطلب کی تقریریوں ہوگی معبود کم ممکن الفناء ولا شیء من ممکن الفناء بمعبود نتیجہ صریح ہے کہ تمہارے مصنوعی معبود لائق عبادت نہیں۔ اموات کے معنی ممکن الموت کے لینا ایک تو ایت موصوفہ اِنَّکَ مَیِّتٌ بتلا رہی ہے دوئم ممکن الموت کا لفظ تمام معبودات باطلہ کو خواہ وہ نزول آیت سے پہلے کے ہوں یا اسی وقت کے یا پیچھے کے سب کو شامل ہے اور اگر اموات کے معنی فوت شدہ کے لیں تو یہ فائدہ متصور نہیں غیر احیاء کے معنی غیر دائم الحیات کے ہم نے اس لئے کئے ہیں کیونکہ خدائی صفت دائم الحیات ہے نہ چند روزہ حیات۔ پس ہماری تقریر بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے قابل پذیرائی اور مشتمل بہ مزید فوائد ہوئی اور آپ کی مطلب براری در بطن قائل کہیں جناب والا کے کسی حوا ٣ ؎ ری کو یہ شبہ نہ ہو کہ شکل اول میں فعلیت صغرٰی ضروری ہے اور مذکورہ شکل میں صغریٰ ممکنہ ہے پس منتج نہ ہوگی اس لئے کہ امکان شکل مذکور میں ربط کی قید نہیں بلکہ خود محکوم بہ ہے۔ فافہم۔ (٢١) اکیسویں آیت یہ ہے ماکَانَ مُحَّمَدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اس لئے مسیح ان کے بعد نہیں آسکتا پس معلوم ہوا کہ فوت شدہ ہے ص ٢١٤ مرزا جی یہاں بھی اصطلاحات بدعیہ سے معذوری کی وجہ سے تقریب تام سے غافل ہوگئے دعویٰ موت مسیح اور دلیل عدم تشریف آوری انّٰی ھٰذا من ذٰلک آیت کا مطلب تو بالکل صاف ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں ان کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی پس مسیح قرب قیامت باوصف نبوت آنحضرت کی امت بن کر آویں گے تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ ان کو نبوت آنحضرتﷺ کے بعد نہیں ملی بلکہ نبوت سابقہ ہی سے موصوف ہوں گے پس جیسے حضرت ہارون ( علیہ السلام) بلکہ خود حضرت مسیح پہلے تورٰیت کے احکام کی تبلیغ کرتے رہے اسی طرح بعد تشریف آوری قرآن شریف کے تابع ہو کر رہیں گے اس میں کوئی حرج نہیں صاف ارشاد ہے لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔ ایک نبی اگر دوسرے نبی کی کتاب کا تابع ہو تو اس میں کیا برائی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں سے عام طور پر وعدہ لیا ہوا ہے کہ جب تمہارے زمانہ میں کوئی رسول آوے تو تم نے اس کو مان لینا اور اس پر ایمان لانا یہ تو مرزا جی کے ڈوبتے کو تنکے کے سہارے ہیں۔ (٢٢) بائسویں آیت ہم نے بصفحہ ٢٥ نقل کی ہوئی ہے وہیں مع جواب ملاحظہ ہو۔ (٢٣) تیئسویں آیت یٰٓاَیُّھُّاَ النَّفْسُ الْمُطْمَبْنَّۃُ اِرْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادی وادْخُلِیْ جَنَّتِیْ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آدمی مرے نہیں اللہ تعالیٰ کی نیک بندوں میں نہیں ملتا چونکہ بموجب شہادت حدیث معراج حضرت مسیح نیک بندوں میں داخل ہوچکے ہیں“ اس لئے ضرور فوت شدہ ہیں ص ٦١٧ “ کیا نئی منطق ہے مرزا صاحب بموجب شہادت حدیث معراج خود آنحضرتﷺ نیک بندوں میں داخل تھے یا نہیں پھر آپ اس سے بعد دنیا میں دوسری زندگی سے آئے یا اسی سے؟ مرزا صاحب کو موت نہ اپنی بلکہ مسیح کی موت سے بڑی محبت ہے آیت کا مطلب بالکل صاف ہے اس آیت کی تفسیر وہی صحیح ہے جو حبرالامت ابن عباس (رض) نے کی ہے (جن کی تفسیر کو مرزا صاحب عموماً اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ میں پیش کیا کرتے ہیں اور اس کے منوانے کے لئے مخالفوں پر بڑا زور دیا کرتے ہیں) ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب نیک بندے قیامت کو قبروں سے اٹھیں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان سے کہیں گے ” اے نفس اللہ کے ذکر سے تسلی پانے والے اللہ تعالیٰ کی طرف چل اور راضی خوشی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں داخل ہو“ (دیکھو تفسیر معالم) اس کو مسیح کے فوت شدہ ہونے سے کیا تعلق ہے۔ (٢٤) چوبیسویں آیت اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ اس آیت میں چار واقعات انسان کی زندگی کے ہیں پیدائش پھر تکمیل و ترتیب کے لیے رزق مقسوم کا ملنا پھر اس پر موت کا وارد ہونا۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح فوت شدہ ہیں ص ٦١٩ مرزا صاحب تکمیل ترتیب کی حدود مختلف ہیں رزق مقسوم بھی ہر زندگی کے مناسب ہوتا ہے فافہم (٢٥) ” پچیسویں آیت یہ ہے کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ہر نفس پر ہر دم فنا آتی رہتی ہے ” فَانٍ“ کا لفظ لانا اور یفنی نہ لانا اسی طرف اشارہ ہے کہ فنا کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے مگر ہمارے مولوی صاحب گمان کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم اس خاکی جسم کے ساتھ جس کو ہر دم فنا لگی ہوئی ہے زمانہ کے اثر سے محفوظ ہے ص ٦١٩ “ مرزا صاحب کی اس نئی منطق سے ہم تنگ آرہے ہیں کہ کہاں کی دلیل کہاں کا دعویٰ بے ربط بے ضبط کہیں کی کہیں کہہ دیتے ہیں۔ بھلا ہر دم فنا وارد ہونے سے فوت ہونا کیسے ثابت ہوا کیا آپ بھی اس فنا کے اثر سے متاثر ہیں یا نہیں ضرور ہوں گے کیونکہ بقول اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو بغیر تابعداری میری کے ان کو کچھ بھی جائز نہ ہوتا۔ (حدیث) آپ کے جیسے مسیح کو کوئی آیت مستثنیٰ کرنے والی نہیں آپ کو بھی نہیں پس محض فنا سے متاثر ہونا اگر فوتیدگی کو چاہتا ہے تو آپ بھی اپنے کفن کی تیاری کریں۔ مرزا صاحب ! اب تو اس آیت کے معنی ڈاکٹری تحقیقات سے بھی متحقق ہوچکے ہیں کہ سات سال بعد موجود جسم تمام کا تمام فنا ہوجاتا ہے لیکن موت اور شے ہے کیونکہ اس فنا کے ساتھ بدل بھی ہوتا رہتا ہے پس آیت موصوفہ کے معنی بالکل صاف ہیں کہ ہر زمین والے کو فنا دامنگیر ہے جو بالکل صحیح ہے ناظرین ! مرزا جی کی قوت علمیہ اور راستبازی کو دیکھیں کہ اپنے مطلب کے لئے آیت قرآنی کے لفظ ” عَلَیْہَا“ کو ہضم ہی کر گئے کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے آیت کے معنی یہ بنتے تھے کہ جو شخص زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے چونکہ مرزا جی کے مخاطب مسیح کو آسمان پر مانتے ہیں پھر وہ اس آیت میں کیسے آسکتے ہیں۔ ہاں اگر آسمان پر ہونا کسی دلیل سے باطل کریں تو اصلی دللک وہ ہوگی نہ کہ یہ آیت پھر اس آیت کا پیش کرنا بجز اس کے کہ تعداد تیس کی پوری ہو کیا معنی رکھتا ہے لیکن اگر ہم سے پوچھ لیتے تو ہم مرزا جی کو ایسی آیات بتلاتے کہ جن سے بجائے تیس کے پچاس تک تعداد پہنچتی۔ (٢٦) چھبیسویں آیت اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَّنَھَرٍ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر بندے جنت میں داخل ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ بعد موت کے ہے ص ٦٢٠ “ بیشک اس آیت میں جس جنت کا ذکر ہے وہ بعد موت ہی ہے لیکن حضرت مسیح کا ایسی جنت میں داخل ہونا جو بعد موت کے ہے کسی دوسری آیت سے ثابت کریں جب وہ ثابت ہوگا تو جواب دیں گے وددنہ خرط القتاد۔ (٢٧) ستائیسویں آیت یہ ہے اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی اُولٰٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ لَایَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَھُمْ فِیْمَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خَالِدُوْنَ۔ اس آیت سے مسیح اور عزیرکا جنت میں داخل ہونا ثابت ہوتا ہے جو بعد موت کے واقع ہے ص ٦٢١ “ حضرت !” جنت“ جس لفظ کا ترجمہ ہے جس میں آپ نے مسیح اور عزیر کو داخل کیا ہے فیما اشتھت کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” اپنی مرادوں میں رہیں گے“ کیا بامراد ہونا جنت ہی کو چاہتا ہے آپ کی مراد منکوحہ ! آسمانی ہے اس کے حاصل ہوتے ہی آپ جنت میں چل بسیں گے۔ آپ کے دشمن جنت میں جائیں آپ ایسے وہم و گمان کو پاس بھی نہ آنے دیں علاوہ اس کے اس آیت کا لفظ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی خود جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی و امی) اور ان کے صحابہ کبار (رض) و دیگر بزرگان کو بھی جن کو بےدین لوگ پکارتے ہیں اور ان سے حاجات طلب کرتے ہیں شامل ہے یا نہیں تو کیا یہ بزرگ آیت کے اترنے کے وقت سب کے سب فوت شدہ تھے؟ تو کیا پھر یہ آیت آپ پر نازل ہوتی ہے؟ یہ بھی تو آپ کے مرید مان لیں لیکن مشکل یہ ہے کہ پھر آپ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی سے خارج ہوتے ہیں کیونکہ اس میں داخل ہونے سے تو آپ کو موت سوجھتی ہے فافھم۔ (٢٨) اٹھائیسویں آیت اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکُکْمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیِّدَۃٍط اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جہاں ہو موت اور لوازم موت اس پر جاری ہوجاتے ہیں۔ بطور اشارۃ النص کے مسیح کو بھی شامل ہے ص ٦٢٢ “ بیشک صحیح ہے لیکن اپنے وقت مقدر پر اِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَایَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ کون کہتا ہے کہ مسیح کو نہیں پائے گی بے شک پاوے گی۔ اس آیت میں اشارۃ النص کا لفظ سن کر بے ساختہ میرے منہ سے ” پیریکہ دم زعشق زند بس غنیمت ست“ نکل گیا کہاں مرزا جی اور کہاں اشارۃ النص کا لفظ بھولے برہمن نے گائے کھائی ہے۔ لیکن ہمارا جو خیال تھا کہ مرزا جی بقول خود علم لدنی کے متعلم ہونے کی وجہ سے ظاہری علوم کے بوجھ سے سبکدوش ہیں وہ صحیح نکلا۔ حضرت ! اشارۃ النص اسے کہتے ہیں اما اشارۃ النص فہی ماثبت بنظم اننص لغۃ وھو غیر ظاھر من کل وجہ ولا سیق الکلام لاجلہ۔ شاشی۔ نور الا نوار۔ توضیح وغیرہ جو کلام کے ظاہری ترجمہ سے سمجھ میں آئے اور کلام سے مقصود اصلی نہ ہوجیسے کوئی کہے کہ میں مرزا جی سے آتھم کی پیشگوئی کے زمانہ میں ملا تھا تو آتھم کی پیشگوئی کا ذکر صاف لفظوں کے ترجمہ سے سمجھ میں آتا ہے لیکن متکلم کی غرض اصلی ملاقات کا واقعہ بتلانا ہے۔ پس آپ جو مسیح کا ذکر بطور اشارۃ النص فرماتے ہیں کس لفظ کے ترجمہ سے سمجھ آتا ہے اگر کنتم کی ضمیر مخاطب سے عام بنی آدم مراد ہوں جیسا کہ آپ کا ماضی الضمیر ہے۔ پھر تو مسیح کے لیے عبارۃ النص ہے جو اشارۃ النص سے قوی ہے اشارہ کہنے کے کیا معنی بہر حال اشارۃ کا لفظ آپ نے بول کر ہمارے موہومی خیال کو مضبوط کردیا اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا نیک عوض دے اور راہ راست دکھائے۔ (٢٩) انتیسویں آیت مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو دیا ہے کہ ! اَعْمَارُ اُمَّتِیْ مَا بَیْنَ السِّتِّیْْنَ اِلَی السَّبْعِیْنَ وَاَقَلُّھُمْ مَّنْ یَّجُوْزُ نیز فوت ہوتے وقت فرمایا مَا مِنْ نَفْسٍ مَّنْقُوْسَۃٍ یَّاْتِیْ عَلَیْھَا مِائَۃُ سَنَۃٍ وَھِیَ حَیَّۃٌ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو زمین پر پیدا ہوا اور خاک میں سے نکلا وہ کسی طرح سو برس سے زیادہ نہیں رہ سکتا ص ٦٢٣ “ شاباش ” این کا راز تو آیدو مرداں چنیں کنند“ مرزا صاحب بہادری اسی کا نام ہے مرزا صاحب نے دو حدیثیں اس باب میں نقل کی ہیں جن میں سے پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میری امت کی عموماً ساٹھ ستر برس عمر ہوا کرے گی بہت کم لوگ ہوں گے جو اس حد سے بڑھیں گے اس مضمون کو تو مرزا صاحب کے دعویٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں حدیث میں بعض لوگوں کی عمر متجاوز ہونے کا بھی ثبوت ہے ممکن ہے کہ مسیح بھی انہیں میں ہوں علاوہ اس کے حضرت مسیح ہنوز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں محسوب بھی نہیں ہوئے تھے تو ان کا حکم ان پر کیسے لگا۔ جب تشریف لاویں گے اس وقت امتی بنیں گے بعد امتی بننے کے چالیس سال زندہ رہ کر فوت ہوجائیں گے علاوہ اس کے آپ کے نزدیک مسیح امت محمدیہ میں نہیں ہے تو پھر امت محمدیہ کا حکم ان پر کیوں لگاتے ہو اگر بطور الزام ہے تو امت محمدیہ بننے کے بعد نہ کہ پہلے ہی۔ دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی و امی) نے فوت ہوتے وقت فرمایا تھا کہ جو جاندار زمین پر ہیں آج سے سو سال تک کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا یعنی ان کی نسل رہ جائے گی خود نہیں رہیں گے۔ چونکہ اس حدیث میں لفظ علیٰ ظہر الارض بھی تھا جس کے معنی ہیں کہ ” زمین پر رہنے والے جاندار“ اور مرزا جی کے مخاطب تو مسیح کو زمین پر نہیں مانتے جس سے مرزا جی کی دلیل میں ضعف آتا تھا اس لئے حدیث پر ہاتھ صاف کرنا چاہا اور جھٹ سے تاویل یا تحریف کردی کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ” جو زمین پر پیدا ہوا اور خاک میں سے نکلا“ مرزا جی کی اس تقریر سے مجھے ایک قصہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ کسی عیسائی سے تثلیث کے متعلق گفتگو تھی عیسائی بولا کہ آپ تو یونہی اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ تثلیث تو قرآن سے بھی ثابت ہے میں نے کہا کہاں قرآن میں تو تثلیث کا مدلل رد ہے۔ بولا دیکھو تو پہلے ہی بسم اللہ۔ الرحمن۔ الرحیم اللہ سے مراد باپ (اللہ تعالیٰ) ہے اور رحمن سے مراد مسیح اور رحیم سے مراد روح القدس ہے۔ کیا خوب؟ چہ خوش گفت ست سعدی ور زلیخنا الایا ایہا الساقی اور کا ساونا ولہا میں حیران ہوں کہ میرزا جی اپنی تقریر پر مخالفانہ نظر کیوں نہیں ڈالا کرتے۔ کیوں اس تقریر کو پیار سے دیکھا کرتے ہیں جس کا نتیجہ ” اپنا بیٹا کا نا بھی ہو تو سو انکھا نظر آئے“ ہوتا ہے۔ یہ تو ہم نے سنا ہے کہ بعض مریدوں سے مشورہ کیا جاتا ہے لیکن مریدوں سے مشورہ اور عیوب نمائی۔ ایں خیال سب و محال ست و جنوں۔ لیجئے مرزا صاحب آپ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔ سنو اور انصاف سے سنو ! کیف فیکم اذا نزل فیکم ابن مریم من السماء واما مکم منکم یعنی کیسے اچھے ہوگے تم جس وقت مسیح ابن مریم آسمان سے اتریں گے حالانکہ امیر المومنین خلیفہ اسلام بھی اس وقت تم میں سے ہوگا۔ رواہ البیہقی واصلہ فی البخاری۔ اور بھی فرمان نبوی سننے ہوں تو مشکوٰۃ میں باب نزول عیسیٰ کو انصاف سے پڑھیئے۔ (٣٠) تیسویں آیت یہ ہے اَوْتَرْقی فِی السَّمَائِ قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا کفار مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں جواب ملا کہ یہ عادت اللہ نہیں کہ خاکی جسم آسمان پر چڑھ جاوے پس مسیح بجسد عنصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ بعد موت گئے ہیں ص ٦٢٥ سبحان اللہ ھذا بہتان عظیم آیت کا مطلب بالکل صاف ہے کفار مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ جب تک تو آسمان پر نہیں چڑھے گا ہم تیری بات نہیں مانیں گے۔ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ کرسکتا ہے وہ ایسے کاموں سے عاجز نہیں وہ تو عاجزی سے پاک ہے ہاں میرا کام نہیں کہ میں خود بخود چڑھ جائوں میں تو صرف اس کا رسول ہوں جو مجھے ارشاد ہوگا تعمیل ارشاد کو حاضر ہوں۔ بتلائیے یہ کس لفظ کا ترجمہ ہے کہ ” عادۃ اللہ نہیں“ کہ خاکی جسم آسمان پر جائے تو آپ نے سبحان ربی کے معنی تو خوب تراش لئے کہ ایسے خلاف عادت کام کرنے سے میرا اللہ پاک ہے مگر ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا کو کیا کریں گے جو اپنے عہدو عبودیت کا مظہر ہے جس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ میں اس سوال کا مخاطب نہیں ہوسکتا چنانچہ دوسری آیات سے بھی یہی مفہوم ہے لااَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا کو غور سے پڑھو۔ اخیر اس طویل بحث کے جس کی طوالت کی وجہ سے ناظرین کے ملال طبیعت کا اندیشہ ہے مرزا صاحب کی ایک حیرت انگیز کارروائی پر ناظرین کو متنبہ کرنا ضروری ہے مراز صاحب اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ والی آیت کو ہمیشہ پیش کیا کرتے ہیں اور مریدوں کو ایسی ضبط کرا رکھی ہے کہ خواب میں بھی ان کو شاید ہی سوجھتی ہے اور اس کی شرح میں حضرت ابن عباس کی تفسیر نقل کیا کرتے ہیں یعنی اِنِّیْ مُمِیْتُکَ اس آیت اور اس تفسیر عباسی پر بڑا نور دے کر اپنے مخالفین سے موت مسیح کا اقرار کرانا چاہتے ہیں مگر واہ ری قرآن کی سچائی کس طرح ظہور کرتی ہے (لِکَیْلَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا) مرزا صاحب اپنی مطلب براری کی وجہ سے یا اگر ہم ان سے حسن ظن کریں۔ تو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ اسی آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کا ترجمہ مرزا صاحب نے اپنی الہامی کتاب براہین احمدیہ جلد چہارم ص ٤٩٩ پر موفی اجرک (پورا بدل دینے والا) کیا ہے۔ اور موت کے معنی جس سے ابن عباس کا قول ” مُمِیْتُ“ ماخوذ ہے نوم اور غشی کے خود ہی کیے ہیں دیکھو ازالہ وہام ص ٦٦٥ پس اگر ہم مرزا صاحب کی ان دونوں الہامی کتابوں کے ترجمہ کو لکھتے تو ہمیں بہت کچھ آسانی تھی۔ یعنی توفی کے معنی اجر پورا دینا۔ لیتے یا ابن عباس کی تفسیر کو بسند صحیح مان کر ممیت کے معنی منیم اور مغشی کے کرتے تو ہمیں آسانی تھی مگر ہم نے کسی الزامی جواب پر کفایت نہ کی کیونکہ الزامی جواب جدل ہونے کے علاوہ آج کل کے مناظرہ میں پسند بھی نہیں۔ مضمون وفات و حیات مسیح قادیانی مباحث کے لئے فیصلہ کن نہیں۔ فیصلہ کن وہی صورت ہے جو خود مرزا صاحب نے میرے حق میں بذریعہ اشتہار مورخہ ١٥ اپریل ١٩٠٧ء کو شائع کی تھی۔ جس کا خلاصہ دو حرفہ مرزا صاحب کے الفاظ میں یہ ہے۔ ” مگر یہ دعویٰ مسیح موعودہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری (اللہ کی) نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو نے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ “ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ مرزا صاحب موصوف اس اشتہار کے ایک سال دو ماہ گیارہ روز بعد ٢٦ مئی ١٩٠٨ء کو میری زندگی ہی میں فوت ہوگئے فالحمد للّٰہ الذی اظہر الحق وابطل الباطل بکلماتہ