سورة القصص - آیت 76

إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلاشبہ قارون موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان پر ظلم وزیادتی کرنے لگا اور ہم نے اس کواتنے خزانے دیے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی ایک دفعہ قارون کی قوم نے اس سے کہا تو اترا مت بے شک اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(76۔83) چنانچہ قارون کے ساتھ دنیا ہی میں یہ معاملہ پیش آیا تم جانتے ہو گے کہ قارون حضرت موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان پر ظلم کرنے لگا جیسا کہ دستور ہے کہ قر ابتدار عموما موذی ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شخص کمینہ اخلاق تھا اور ہم نے اس کو اتنا مال دیا تھا کہ اس کے خزانوں کو یعنی جن صندوقوں میں وہ اس مال کو بند کیا کرتا تھا طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت بمشکل اٹھا سکتی تھی قارون کا ذکر بائیبل کی کتاب گنتی ١٦: ٨ میں بنام قرح ملتا ہے۔ (منہ) (مفاتح جمع مفتح بفتح المیم ہم نے مراد لی ہے اور کنوز جمع ہے کنز کی۔ کنز اس مال کو کہتے ہیں جو جمع کیا گیا ہو لیکن شریعت کے محاورہ میں اس مال کو کہتے ہیں جس کو زکوٰۃ ادا نہ کی جائے چونکہ قارون مال کی زکوٰۃ نہ دیتا تھا اس لئے اس کے مال کو کنوز کہا گیا حضرت ابن عباس اور حسن بصری (رض) نے مفاتح سے مال ہی مراد لیا ہے۔ (تفسیر کبیر) جس کا مطلب غالباً یہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ قارون کا نام بائیبل میں قرح ہے اور اس کا قصہ کتاب استثنا میں ہے۔ (منہ) اس کے واقعات سے وہ وقت قابل غور ہے جب اس کی قوم بنی اسرائیل میں سے نیک لوگوں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو اس مال اور عزت پر اترا نہیں یقینا جان کہ اللہ اترانے والوں سے محبت نہیں کرتا کیونکہ اترانا اور تکبر کرنا اللہ کو کسی طرح پسند نہیں پس تو اس بد عادت کو چھوڑ دے اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس کے ذریعے سے آخرت کی تلاش کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول جو چند گز کپڑا اور چند بالشت زمین ہے آخر کار یہی تو دنیا کی کائنات ہے پس تو اس فرعونیت کو دماغ سے نکال دے اور مخلوق سے احسان کیا کر جیسا کہ اللہ نے تجھ سے احسان کیا کیا تو نے بزرگوں کا کلام نہیں سنا چو حق بر تو پاشد تو بر خلق پاش پس تو اس احسان اللہ تعالیٰ کی قدر کر اور غرور اور تکبر کی وجہ سے ملک میں فساد نہ کر کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں کرتا بلکہ سخت برا جانتا ہے اس کمبخت نے اس بزرگانہ وعظ و نصیحت کا نہایت ہی برے لہجے میں جواب دیا‘ کہا کہ تمہاری تقریر کی بنا ہی غلط ہے تم نے جو اس مال کو احسان الٰہی میں شمار کیا ہے یہی غلط ہے بلکہ اصل بات یہ کہ جو کچھ مجھ کو ملا ہے میری لیاقت اور علم سے حاصل ہوا ہے جب کہ میں اتنے مال اور اتنے زور والا ہوں تو مجھے کس بات کا اندیشہ ہے کیا اسے معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے ان لوگوں کو ہلاک کیا جو اس سے زیادہ قوت والے اور بہت سی جمعیت مال و اسباب والے تھے اور اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جب عذاب آتا ہے تو مجرموں کو گناہوں سے سوال نہیں ہوتا کہ یہ کام تم نے کئے یا نہیں کئے؟ کیونکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے پس اس ناگہانی بلا سے اس کو ڈرنا چاہئے تھا مگر وہ ایسا شریر تھا کہ اور اکڑ کر خوب زیب و زینت کر کے اپنی قوم کے سامنے نکلا تو جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے یعنی جن کی کو تہ نظری اس بات کا فیصلہ کرچکی تھی کہ جو کچھ ملا ہے وہ اس دنیا ہی میں ہے اس سے علاوہ کچھ نہیں انہوں نے کہا اے کاش جو کچھ قارون کو ملا ہے ہم کو بھی ملا ہوتا کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا صاحب نصیب ہے یہ تو ان لوگوں کا کلام تھا جو ہر ایک قسم کی عزت کو دنیاوی فوائد سے وابستہ جانتے ہیں جن کا خیال تھا کہ جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں اور جن لوگوں کو علم اور معرفت الٰہی سے کچھ حصہ ملا تھا انہوں نے ان دنیاداروں کا کلام سن کر بڑا افسوس کیا۔ کہا افسوس ہے تم پر تم سمجھے ہو کہ دنیا ہی دنیا ہے اور کچھ نہیں حالانکہ اللہ کے ہاں کا بدلہ بہت ہی بہتر ہے ان کے لئے جنہوں نے ایمان لا کر اعمال صالحہ کئے ہیں اور یہ نیک خصلت انہی لوگوں کو ملتی ہے جو تکالیف پر صبر کرنے والے ہیں چاہے وہ تکالیف جسمانی ہوں یا مالی‘ ملکی ہوں یا مذہبی کیا تم جانتے ہو کہ نیک اعمال کا نیک اور بد اعمالی کا بد کوئی بدلہ نہیں اگر تمہارا یہ خیال ہے تو سخت افسوس ہے پس وہ اسی جھگڑے میں تھے کہ ہم نے اس قارون کو اور اس کے گھر کو تہ زمین میں دھنسا دیا زمین کو ایسی کچھ حرکت ہوئی کہ قارون مع اپنے عالی شان محلوں کے زمین کے اندر دھنس گیا جیسے ٤ اپریل ١٩٠٥ ء کو پنجاب میں زلزلہ عظیم سے ضلع کانگڑہ وغیرہ میں اور ٥ اجنوری ١٩٣٤ کو صوبہ بہار میں واقع ہوا تھا پھر تو اللہ کے سوا کوئی جماعت بھی ایسی نہ ہوئی جو اس کی مدد کرتی اور نہ وہ خود مدد کرنے والوں سے ہوا۔ ادھر یہ تباہ ہوا ادھر شطرنج کی چال ہی بدل گئی اور کچھ کا کچھ ہوگیا جن لوگوں نے ابھی کل ہی اس کے رتبہ کی تمنا کی تھی وہ بھی کہنے لگے ہائے غضب ! اب معلوم ہوا کہ اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے اللہ اکبر ! اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمارا برے خیال کی پاداش میں ہم کو بھی زمین میں دھنسا دیتاکچھ شک نہیں کہ نا شکرے کافر کبھی فلاح نہیں پائینگے بلکہ اپنی نا شکری کی پاداش ضرور بھگتیں گے اسی لئے ہماری طرف سے عام اعلان کہ ہم (اللہ) اس آخرت کا گھر اور اس کی عزت انہی لوگوں کے لئے مخصوص کرینگے جو زمین پر اپنے رتبہ سے بلندی اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ بندگی کے رتبہ سے لعلّی کرنا تو علو اور تکبر ہے اور احکام تمدنی کا خلاف کرنا فساد ہے مگر متقی لوگ ان دونوں بد خصلتوں سے پاک ہوتے ہیں اس لئے انجام بخیر پر ہیز گاروں ہی کا ہے