سورة الشعراء - آیت 141

كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا (٨)۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(141۔159) اسی طرح ثمودیوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔ جب ان کے بھائی حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو کھلم کھلا اس کی اور اس کے رسولوں کی مخالفت کرتے ہو کچھ شک نہیں کہ میں تمہارے لئے معتبر رسول امین ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری تابع داری کرو میں اس تبلیغ پر کوئی عوض نہیں مانگتا میری مزدوری تو صرف اللہ رب العالمین کے پاس ہے بھلا تم عیش و عشرت میں روز و شب ایسے سرشار رہتے ہو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس جگہ تم اس طرح ہمیشہ آرام میں چھوڑے جائو گے یعنی باغوں چشموں پسندیدہ کھیتوں اور کھجوروں میں جن کے شگوفے نازک نازک ہیں اور تم پہاڑوں کو کھود کھود کر خوشی خوشی سے خوبصورت گھر بناتے ہو کیا تم جانتے نہیں ہو کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ نہ تم رہو گے نہ تمہارے گھر کیا تم نہیں سمجھتے کہ یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائینگے پس تم اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو میں تم کو سیدھی راہ پر لے چلونگا اور تم ان اپنے حد سے گزرجانے والے رؤساء کی بات نہ مانو جو ملک میں فساد کرتے ہیں یعنی خلاف حکم اور مرضی اللہ تعالیٰ کے لوگوں میں غلط کاریاں پھیلاتے ہیں اور برائیوں کی اصلاح نہیں کرتے حضرت صالح کی یہ مشفقانہ نصیحت سن کر کمبخت الٹے اکڑے اور بولے ہمارے خیال میں تو یہی ہے کہ تجھ پر جادو کیا گیا ہے۔ تو رسول کہاں سے بن بیٹھا ہے تو تو صرف ہماری طرح کا آدمی ہے کھاتا ہے پیتا ہے جورورکھتا ہے بس یہی تینوں لوازمات بشری ہیں جو ہم میں اور تم میں برابر ہیں پھر تجھ میں کیا بڑائی ہے جو تو رسول ہونے کا دعوے دار ہے پس اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو کوئی نشانی لے آ یعنی کوئی ایسا معجزہ دکھا کہ تیری نبوت کا اسی سے ثبوت ہو۔ حضرت صالح نے دعا کی ان کی دعا سے ایک اونٹنی جنی تو کہا دیکھو یہ ایک اونٹنی تمہارے لئے میری نبوت کی نشانی ہے پانی میں ایک دن حصہ اس کا اور ایک دن مقرر تمہارا حصہ ہے پس اس کو جہاں چاہے چرنے پھرنے دو اور برائی سے اس کو تکلیف نہ پہنچانا ورنہ بڑے روز یعنی قیامت کا سا عذاب تم کو آلے گا مگر وہ کہاں ایسے تھے کہ خاموش رہتے انہوں نے اس کی ایک نہ سنی فورا اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں پس عذاب الٰہی کے سبب سے وہ صبح ہوتے ہی اپنے گھروں میں ندامت کے مارے پشیمان پڑے تھے کیونکہ عذاب کے آثار نمایاں ہو رہے تھے پس تھوڑی دیر میں عذاب نے ان کو آدبایا اور ہلاک کردیا کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں بڑی نشانی ہے اور جو مانیں ان کیلئے ہدایت ہے مگر ان میں سے بہت سے لوگ نہیں مانتے کیی سچائی کے قائل نہیں ہوتے اور تیرا پروردگار بڑا غآلب بڑا مہربان ہے کہ باوجود غلبہ قدرت کے ان کو جلدی نہیں پکڑتا لیکن آخر بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی یہ لفظ اس لئے بڑھایا ہے کہ آج کل کے نیچری مذاق کہتے ہیں کہ ہر ایک چیز قدرت کی نشانی ہے جن میں اونٹنی بھی ایک بڑی نشانی ہے حضرت صالح نے ان کو اسی قدرتی نشانی کی طرف توجہ دلائی ہے اور کوئی خلاف عادت معجزہ نہیں دکھایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ پر کفار جو نشان مانگا کرتے تھے وہ نشان قدرت نہ مانگتے تھے جس سے ثابت ہو کہ اس مدعی کی نبوت صحیح ہے نہ یہ کہ صانع کی کسی صنعت کا ثبوت چاہتے تھے۔ نشانی قدرت منکرین قدرت کے سامنے پیش ہوا کرتے ہیں۔ جیسے دہرئیے‘ نشان نبوت منکرین رسالت و نبوت کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے نشانوں کو ایک کہنا دانشمندی نہیں۔ بھلا یہ کیسا کلام ہے کہ مخالف رسالت تو کہے کہ کوئی ایسا نشان دکھا جس سے نبوت کا ثبوت ہو مگر نبی اس کو کہے یہ مصنوع قدرت دیکھ وہ صنعت اللہ دیکھ۔ علاوہ غلط راہ اور خلاف طریق مناظرہ کے یہ کلام نہ تو کسی دانش مند کے منہ سے نکل سکتا ہے نہ کوئی دانش مند سن سکتا ہے۔ (منہ)