سورة آل عمران - آیت 1

لم

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

الف۔ لام۔ میم

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔20)۔ اللہ فرماتا ہے میں ہوں اللہ بڑا جاننے والا اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ مسیح نہ عزیر نہ پیر نہ فقیر نہ کوئی کیونکہ لائق عبادت وہ ہو جو دائم زندہ مخلوق کو تھامنے والا زندہ رکھنے والا ہو اور مسیح تو خود اپنی حیات اپنی بقا میں اللہ کا محتاج ہے پھر وہ کس طرح اللہ اور معبود ہوسکتا ہے۔ شان نزول (الٓمّٓ) بخران (شہر) سے قریب ساٹھ کے عیسائی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور گفتگو کرنے سے پہلے انہوں نے اپنے طریق پر مسجد نبوی میں نماز ادا کی بعد نماز کے مجلس مناظرہ قائم ہوئی آپ نے ان کو فرمایا مسلمان ہوجائو وہ بولے ہم تو پہلے ہی سے مسلمان ہیں آپ نے فرمایا تم مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹے ہونے کا عقیدہ اور صلیب کی عبادت اور خنزیر کا کھانا نہ چھوڑو۔ مسیح کی الوہیت میں گفتگو کرچکے تو آپ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ اولاد باپ کے مشابہ ہوتی ہے۔ بولے ہاں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہمارا مالک تو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور مسیح تو فنا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ تو تمام زمین و آسمان کی چیزیں جانتا ہے اور مسیح تو سوا ان اشیاء کے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو بتلائی ہیں نہیں جانتا۔ کیا تمہیں یہ بھی خبر نہیں کہ مسیح کو اس کی ماں نے مثل اور عورتوں کی پیٹ میں اٹھایا اور وہ پیٹ میں بھی وہی غذا پاتا رہا جو اور بچے پاتے ہیں یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ اس پر یہ سورت نازل ہونی شروع ہوئی (معالم مختصراً) یہ سورت الوہیت مسیح کے ابطال میں نازل ہوئی ہے۔ منہ راقم کہتا ہے کہ یہ واقعہ اخلاق محمدیہ کا کامل ثبوت ہے۔ عیسائی لوگ مسجد نبوی میں نماز اپنے طریق پر پڑھیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) خاموش ہیں اور باوجود قدرت کے کچھ نہ کہیں والے برحال تاکہ ہم ایسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں جو غیروں کو بھی اپنی مسجد سے منع نہ کرے ہم ایک فریق دوسرے کو بایں جرم کہ ہمارے طریق کے خلاف نماز کیوں پڑھتا ہے گو مسلمان ہے مسجد سے باہر نکال دیتے ہیں اتنی ہی بات پر قناعت نہیں بلکہ کچہریوں میں غیر مسلموں سے اس امر کا فیصلہ کراتے ہیں کہ کون سا فریق مسجد میں رہنے کا حق دار ہے سچ ہے شنیدم کہ مردان راہ اللہ دل دشمناں ہم نہ کروند تنگ تراکنے میسر شود ایں مقام کہ بادو ستانت خلاف است و جنگ وہی اللہ جو سچا معبود ہے اس نے تیرے پاس اے محمد (علیہ السلام) سچی کتاب قرآن کی صورت میں بھیجی ہے جو اپنے سے پہلی کتب نازلہ کو سچا بتلانے والی اور غلط واقعات کی تغلیظ کرنے والی کیونکہ یہ کتاب نگہبان ہے واقعات گذشتہ پر مسیح کی الوہیت کے مضمون سے جو یہ کتاب انکاری ہے تو اس لیے کہ وہ مضمون منزّل من اللہ نہیں نہ اس لیے کہ یہ کتاب تورات اور انجیل کو مانتی نہیں بلکہ تورات اور انجیل کی بابت تو صاف لفظوں میں منادی کرتی ہے کہ اللہ نے تورات و انجیل کو پہلے سے لوگوں کی ہدائت کے لئے اتارا تھا اور ان کی تبلیغ عام کا حکم بھی دیا تھا مگر چونکہ نادان لوگوں نے ان میں کمی زیادتی اور بے جا تاویلیں کرنی شروع کردیں اس لئے اللہ نے فیصلہ کرنے والا قرآن شریف نازل کیا پس جو لوگ اللہ کے ان حکموں سے منہ پھیریں اور اپنی ہی ہٹ پر اڑ رہیں اور اللہ کے بندہ کو اللہ کہنے سے باز نہ آویں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا زبردست بدلہ لینے والا ہے۔ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ مسیح میں خدائی علامات میں سے تو کوئی بھی نہیں مسیح کو توکل کی خبر بھی معلوم نہ تھی اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں نہ آسمان کی نہ زمین کی اور مسیح تو مخلوق ہے اور اللہ خالق وہی اللہ تمہاری صورتیں تمہاری ماؤں کے رحموں میں جس طرح چاہتا ہے بنا دیتا ہے کسی کو اس فعل میں دخل نہیں یہ صفات لازمہ الوہیت مسیح کہاں ہیں پس یقینا جانو کہ اس کے سوا ساری دنیا میں کوئی بھی معبود نہیں جو بوجہ صفات مذکورہ کے بڑا غالب کسی سے مغلوب نہ ہونے والا نہ کسی سے دبنے والا اور بڑی حکمت والا ہے جس کام کو کرنا چاہے ایسی حکمت سے کرتا ہے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔ نہ کہ دشمنوں سے دب کر۔ ایلی ایلی پکارے (انجیل متی ٢٧ باب کی طرف اشارہ ہے جہاں لکھا ہے کہ مسیح نے سولی پر چڑھ کر کہا ایلی ایلی بمقتنی اے میرے اللہ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ ١٢ منہ) اور پھر بھی دعویٰ الٰہی کرے یادرکھو اسی زبردست غالب حکمت والے نے تیری طرف اے نبی واضح ہدائیت کرنوالی کتاب اتاری ہے جس میں سے بعض احکام بالخصوص وہ احکام جن میں یہ لوگ کجروی کرتے ہیں جیسے توحید خداوندی واضحہ لائحہ ہیں یہی ہیں اصل مقصود کتاب کے جس کے لئے کتاب بھیجی ہے جو ان حکموں کے الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے وہی مراد ہے اور ان الفاظ کا کوئی ترجمہ اور معنی بھی خلاف مطلب نہیں ” اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ اس آیت کے معنی بتلانے میں علما کا کسی قدر اختلاف ہے کہ محکمات اور متشابہات کیا ہیں ہر ایک نے اپنے اپنے خیال کے مطابق ان کی تفسیر کی ہے کوئی کہتا ہے جو ہر مذہب اور ملت میں برابر حکم رکھتے ہیں جیسے صدق و کذب محکمات ہیں اور جو ادیان میں مختلف ہیں وہ متشابہات ہیں کوئی کہتا ہے توحید محکم ہے اور اس کے سوا بعض احکام متشابہ ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ ناسخ محکم ہے اور منسوخ متشابہ بعض کہتے ہیں جو آیت اپنے معنی صاف لفظوں میں بتلا دے وہ محکم ہے اور جو کسی قدر خفا رکھتی ہو وہ متشابہ ہے اصل تحقیق اس امر کی قرآن کی اسی آیت پر غور کرنے سے ہوسکتی ہے اس جگہ اللہ تعالیٰ نے گو محکم اور متشابہ کی ماہیت اور تعیین نہیں بتلائی لیکن اس میں شک نہیں کہ متشابہات کا نتیجہ بتلا دیا جس سے ان کی ماہیت کا بھی من وجہ علم ہوگیا۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے بغرض فتنہ پردازی پڑتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ان کے اصلی معنی سمجھنا چاہتے ہیں یا جو ہم نے بیان کئے ہیں یہی اصلی ہیں۔ اب ہم اپنے زمانہ کے اہل زیغ (عیسائیوں اور آریوں ہندئوں وغیرہم) کو دیکھتے ہیں تو اس آیت کی بالکل صداقت پاتے ہیں کہ یہ لوگ قرآن شریف کی جن آیتوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ آیات بول رہی ہیں کہ ہم متشابہات ہیں اور ہم پر نکتہ چینی کرنے والے اہل زیغ ہیں مثلاً آیت نَسُواللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ جس کے ظاہری معنی ہیں ” منافق اللہ تعالیٰ کو بھول گئے اور اللہ منافقوں کو بھول گیا اہل زیغ تو سنتے ہی کود اٹھے کہ اللہ بھی کسی کو بھول جاتا ہے۔ دیکھو مسلمانوں کا اللہ بھولتا ہے ایسا ہے ویسا ہے یا دوسری آیت اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ الآیہ۔ جس کے ظاہری معنی ہیں کہ ” جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے کرتے ہیں‘ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے“ اس پر اہل زیغ نے شور مچایا کہ محمد (ﷺ) تو خود بخود خدائی کے مدعی ہیں اپنے ہاتھ کو اللہ کا ہاتھ بتلاتے ہیں۔ یا آیت مسیح (علیہ السلام) کے روح اللہ اور کلمۃ اللہ والی جس کے ظاہری معنی سے اہل زیغ نے ورقوں کے ورق سیاہ کردیئے کہ قرآن بھی مسیح کی الوہیت کا مقر ہے حالانکہ اس قسم کی آیتوں کا مطلب حسب محاورہ زبان صاف ہونے کے علاوہ خود قرآن شریف میں اس کا قرینہ بھی موجود ہے پہلی آیت کا قرینہ یہ ہے کہ خود اللہ نے فرما دیا وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا (تیرا رب کسی کو بھولتا نہیں) اس سے معلوم ہوا کہ نَسِیَہُمْ اپنے ظاہری معنی پر نہیں ملے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ نے بھی ان کو اس بھول کی سزا دی۔ دوسری آیت کے معنی سمجھنے کو بھی قرآن مجید میں لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (کہ اللہ کی مثل اور مشابہ کوئی چیز نہیں) موجود ہے۔ پس آیت موصوف کے معنی بالکل صاف ہیں کہ لوگ جو کچھ تیرے ساتھ معاملہ کرتے ہیں چونکہ ہمارا رسول ہے اس لئے وہ دراصل ہمارے ہی ساتھ ہے۔ بیعت کے وقت تیرا نہیں گویا خود اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے اس میں کیا اعتراض ہے اسی طرح حضرت مسیح کی الوہیت کے متعلق اہل زیغ نے وہ مقامات قرآن مجید کے نہ دیکھے یا دانستہ اغماض کیا جن میں صریح لفظوں میں اس مسئلہ کو قرآن شریف نے رد کیا ہے چنانچہ اسی جلد کے کسی مقام میں مفصل آتا ہے۔ غرض اس قسم کی کارروائیاں اہل زیغ کی دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیتیں بیشک متشابہ ہیں اور بعض محکم کیونکہ متشابہات کے معنی ہیں ملی جلی جس کو کم فہم مخاطب سرسری نظر سے نہ پہچان سکے۔ لیکن جو لوگ سمجھ دار اور راسخ فی العلم ہیں ان کو تو ان باتوں کی خوب پہچان ہے۔ اس کی مثال محسوس میں دیکھنی ہو تو سونے اور ملمع کا زیور ایک جگہ رکھ کر دیکھیں کہ کس طرح ناسمجھ آدمی دھوکہ کھا کر سونے کو چھوڑ کر ملمع کے پیچھے پڑتے ہیں اور صرف ایک نظر میں تاڑ جاتے ہیں کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا ہے۔ ہاں یہ سوال رہا کہ اللہ تعالیٰ کو جب معلوم تھا کہ ان آیتوں پر لوگ معترض ہوں گے تو ایسے الفاظ میں مدعا کو بیان ہی کیوں کیا تو یہ سوال بالکل اس سوال کے متشابہ ہے جیسا مجھ سے کسی دہر یہ نے کہا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہے اور وہ بقول تمہارے رحیم و کریم بھی ہے تو بدہضمی کرنے والی چیزیں کیوں پیدا کیں اس کا جواب تو شاید کسی قدر مشکل بھی ہو متشابہات کے سوال کا جواب تو بالکل صاف ہے اور خود قرآن مجید میں مذکور ہے اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قُرْاٰنًا عَربِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ یعنی قرآن ہم (اللہ) نے عربی زبان میں اتارا ہے۔ جو عربی کے محاورات ہوں گے انہی کے موافق مضمون ادا ہوگا بھلا اسی طرح ہم اہل زیغ سے پوچھتے ہیں کہ پر میشور نے جو وید میں اگنی کا لفظ بولا ہے جس سے عام ہندو اور حامیان وید نے آگ سمجھ کر آتش پرستی شروع کردی حالانکہ (بقول آریہ سماج) اگنی سے ذات باری مراد ہے تو اگنی کے بجائے کوئی اور لفظ مناسب کیوں نہ رکھ دیا جس سے بت پرستوں کو شبہ نہ ہوتا اسی طرح بایئبل میں اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کا فرزند کہا ! جس سے حامیان بایئبل خواہ مخواہ اعتراضات کے بچھاڑ میں آگئے ان کی بجائے کوئی اور مناسب لفظ کیوں نہ رکھ دیا۔ پس ہماری تقریر سے ثابت ہوا کہ متشابہات وہی احکام اور آیات قرآنی ہیں جن کو اہل زیغ بغرض فتنہ پردازی اشاعت کریں عام اس سے کہ وہ حروف مقطعات ہوں۔ نعماجنت ہوں یا عذاب دوزخ۔ سمع۔ بصر۔ صفات خداوندی ہوں یا معجزات نبوی۔ احکام متبدلہ ہوں یا ثابتہ۔ اگر قرآن شریف پر غور کیا جاوے تو یہ معنی ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کل قرآن مجید کو محکم بھی فرمایا کِتَابٌ اُحُکِمَتْ اٰیَاتُہٗ اور سب کو متشابہ بھی بتلایا ہے کِتَابًا مُّتَشَابِھًّا پس یہ دونوں وصف باوجود متضاد ہونے کے صرف مخاطبین کے اعتبار سے جمع ہیں ہاں اس آیت میں جس کا ہم عاشیہ لکھ رہے ہیں بعض کو محکم اور بعض کو متشابہ فرمایا تو اس زمانے کے اعتبار سے ہے جو صرف توحید خالص اور ثبوت قیامت پر ٹھوکر کھاتے ہیں اور تعلیم توحید کو سن کر اَجَعَل"الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ کا شور مچاتے تھے۔ پس جو آیات اہل زیغ کے لیے مزلۃ الاقدام ہوں اور بے سمجھی سے ان کے ذریعہ فتنہ پردازی کریں وہی متشابہات ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل زیغ نے کل قرآن کو حتی کہ بسم اللہ کو بھی اعتراض سے خالی نہیں چھوڑا پس اس لحاظ سے کل قرآن متشابہ ہوا جو دراصل سب کا سب ” محکم“ ہے اس مسئلہ کے متعلق ہمارا ایک مستقل رسالہ ” آیات متشابہات“ بھی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے۔ منہ “ اور دوسرے کچھ ملے جلے ہیں جن کے ظاہر الفاظ کا مطلب اصل مطلب سے غیر ہے پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کتاب میں سے ملتے جلتے احکام یا اخبار کے پیچھے پڑیں گے تاکہ لوگوں کو گمراہ کریں اور بظاہر یہ غرض جتلا دیں گے کہ ان کی اصل مراد پاویں اور لوگوں کو اصل مطلب سے آگاہ کریں حالانکہ ان کا اصل مطلب اللہ تعالیٰ اور راسخ علم والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کو اتنا رسوخ فی العلم کہاں کہ ان کی طرح یہ بھی سمجھیں یہ تو سرسری لفظوں کے تراجم اور ظاہری مفہوم کو بلا قرینہ سن کر بڑبڑا اٹھتے ہیں لائق اور قابل لوگ اس بھید کو جانتے ہیں جب ہی تو کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن کو مان چکے ہیں بے شک یہ سب اول سے آخر تک ہمارے اللہ کے پاس سے ہے اور اس بھید کو بخیر عقل والوں کے کوئی نہیں سمجھتا سمجھ داروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ سب اپنے دینی اور دنیاوی امور سپرد اللہ کرتے ہیں اور اپنی تمام آرزوئیں اسی سے مانگتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے اللہ ہمارے دلوں کو بعد ہدایت کرنے کے ٹیڑھا مت کر کہ ہم بھی تیرے کلام سمجھنے میں کجروی نہ کریں اور اپنے ہاں سے ہم کو رحمت سے حصہ مرحمت کربیشک تو ہی بڑا فیاض ہے اور نشانی داناؤں کی یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے فرمودہ پر ایمان کامل رکھتے ہیں اور اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے اللہ بے شک تو سب بنی آدم کو ایک دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں اس لئے کہ اللہ کبھی اپنے وعدے خلاف نہیں کیا کرتا اس کی الوہیت خلاف وعدہ کرنے کے خلاف ہے یہی لوگ ہمارے ہاں مقبول بندے ہیں گو بوجہ ناداری ظاہربینوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہوں اس لئے کہ مال ودولت ہمارے ہاں کوئی قابل عزت نہیں کیا تم نہیں جانتے کہ جو لوگ مال و دولت کے گھمنڈ میں ہمارے احکام کے منکر ہیں ان کو جب سزا ملنے لگے گی تو ان کے مال اور اولاد اللہ کے عذاب سے انہیں کچھ بچانہ سکیں گے۔ اور یہ لوگ جہنم کی آگ کا ایندھن ہوں گے ان منکروں کی حالت اور عادت بعینہ فرعونیوں کی اور ان سے پہلوں کی سی ہے جنہوں نے ہمارے حکموں کو جھٹلایا پس باوجود مال ودولت کے عذاب الٰہی سے نہ بچ سکے آخر کار ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے ان کو پکڑا اور اللہ کی پکڑ سے کوئی ان کو بچا نہ سکا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑے سخت عذاب والا ہے۔ اسے کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی اسی طرح یہ کفار تیرے معاند بھی جو اپنے ظاہری اعزاز پرنازاں ہیں ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔ بے شک ابھی سے تو ان منکروں کو کہہ دے کہ تم بھی تھوڑے دنوں تک مغلوب کئے جاؤ گے جیسے تم سے پہلے لوگ مغلوب ہوچکے ہیں۔ اور بعد مغلوب ہونے کے جہنم میں جمع کئے جاؤ گے جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہوگا اور وہ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔ باز آجائو ورنہ ذلیل و خوار ہوگے ” قُل لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا جنگ بدر کے فیصلہ کے بعد حضرتﷺ نے یہود کو ایک جگہ جمع کر کے کہا کہ دیکھو عزت بچا کر مسلمان ہوجائو ایسا نہ ہو کہ پھر تم بھی مثل کفار مکہ کے ذلیل و خوار ہو انہوں نے کہا کہ جن مشرکوں پر تم نے فتح پائی ہے وہ بیچارے سیدھے سادھے فن جنگ سے ناآشنا تھے ہم سے اگر مقابلہ ہوا تو دیکھو گے ہم کیسے ہاتھ دکھائیں گے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ اگر اپنی صنعت جنگ وغیرہ پر ناز رکھتے ہو تو واقعات گذشتہ کو دیکھو تمہارے لئے ان دو فوجوں میں جو جنگ بدر میں بھڑی تھیں کمال قدرت اللہ کریم کی نشانی ہے ایک جماعت ان میں سے جو مسلمان تھی اللہ کی راہ میں بغرض نصرت دین لڑتی تھی اور دوسری جماعت جو کافر اور ظالم تھی علاوہ سازو سامان کے ان کی کثرت بھی اس درجہ تھی کہ مسلمان ان کو اپنے سے دو گنا آنکھوں سے دیکھتے تھے مگر پھر بھی ان ضعیف اور کمزور لوگوں کی فتح ہوئی جو علاوہ بے سروسامانی کے تعداد میں بھی بہت کم تھے اس لیے کہ اللہ اپنی مدد سے جس کو چاہتا ہے قوت دیتا ہے بے شک اس واقعہ میں سمجھ داروں کے لئے بڑی نصیحت ہے مگر چونکہ سردست اسلام میں تکلیف پر تکلیف ہے اور ان لوگوں کو اپنی خواہش کی چیزیں خوبصورت عورتیں اور اہل و عیال بیٹے بیٹیاں اور چاندی سونے کے ڈھیر اور بڑے خوبصورت پلے ہوئے گھوڑے اور چار پائے اور کھیتی باڑی وغیرہ اشیاء ہم کو جو قسم بھلی معلوم ہوتی ہے اس لیے اسلام سے رکتے ہیں۔ لیکن اللہ کے بندے جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اگر ہے تو صرف دنیا کا گذاراہ ہے جو چند روز کے بعد فنا ہے اور اللہ کے ہاں نیک کاموں پر بڑی عزت کا مرتبہ ہے تو ان سے کہہ دے کہ میں تم کو اس دنیاوی عیش وعشرت سے اچھی چیز بتاؤں سنو ! جو لوگ بری باتوں سے پرہیز کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں یہ نہیں کہ ان باغوں میں ان کا چند روز ہی بسیرا ہوگا بلکہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور اس عیش و آرام میں ان کو تجرد کی بھی تکلیف نہ ہوگئی اس لیے کہ ان کے لیے ان باغوں میں بڑی ستھری بیویاں ہوں گی اور بڑی بھاری نعمت ان کے لئے خوشنودی اللہ کریم کا اعزازی تمغہ ہوگا کیوں نہ ہو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے جو اس کے راستہ میں تکلیف اٹھاتے ہوتے کہتے ہیں اے ہمارے اللہ بے شک ہم تیرے احکام پر ایمان لائے پس تو ہمارے گناہ بخش دے اور بروز قیامت ہم کو عذاب جہنم سے بچائیو تکلیف پہنچے تو اس میں بڑی جوانمردی اور ثابت قدمی سے صبر کرتے اور باوجود کثیر المشاغل ہونے کے بھی سچ بولتے اور ہر کام میں اللہ کی تابعداری کرتے اور حسب توفیق خرچ کرتے اور صبح کے وقت جو بڑی راحت کا وقت ہوتا ہے اٹھ کر اللہ سے بخشش مانگتے ہیں بھلا ان کی روش کیوں نہ پسند یدہ ہو جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے سب فرشتے اور دنیا کے سب سچے علم والے ظاہر کرتے ہیں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود برحق نہیں جو اکیلا باانصاف گناہوں گی سزا اور نیکیوں کا عوض دینے والا حاکم ہے پس سوائے اس کے کوئی معبود برحق نہیں نہ مسیح نہ کوئی وہ سب پر غالب بڑی حکمت والا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معتبر مذہب اسلام ہے جو حضرت محمد رسول اللہ علیہ وسلم کا دین اور طریقہ ہے اور اب یہ اہل کتاب یہودونصاری جو اس امر میں مخالف ہوئے ہیں تو بعد پہنچنے واضح علم کے محض ضد سے مخالف ہوئے ہیں چونکہ ایک کا کام دوسرے کو ضرور معیوب معلوم ہوتا ہے اس لئے جو لوگ بوجہ حق سمجھتے اسلام کے مسلمان ہوتے ہیں دوسرے ان کی دشمنی سے خواہ مخواہ ان پر اعتراض کرتے ہیں اور عوام میں اپنا رسوخ بڑھاتے ہیں پس یادرکھیں کہ جو کوئی اللہ کے حکموں سے انکاری ہوگا خواہ کسی وجہ سے کسی کی ضد سے یا اپنی ہٹ سے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ان سے حساب لینے والا ہے دنیا کی زندگی کے چند روز ان کو مہلت ہے مرتے ہی ان کے لئے ہاویہ جہنم تیار ہے چونکہ معلوم ہوچکا ہے کہ یہ لوگ محض اپنی ضد سے مخالف ہیں۔ پس اگر تجھ سے کسی امر میں جھگڑا کریں تو تو ایسے ضدیوں کو بفحوائے جواب جاہلاں باشد خموشی کہدیجویو کہ میں اور میرے اتباع سب لوگ تو اللہ کے تابعدار ہوگئے ہیں۔ تم جانو تمہارا کام اپنے کئے کا بدلہ پاؤ گے یہ کہہ کر جھگڑا چھوڑدے اور تو بطور نصیحت ان کتاب والوں اور عرب کے ان پڑھوں سے کہہ دے کہ کیا تم بھی اللہ تعالیٰ کے تابعدار ہوتے ہو یا نہیں پس اگر وہ اللہ تعالیٰ کے تابعدار ہوگئے تو جان لیجو کہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو تیرا بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ تیرے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ جس سے انجام کار ان کو معاملہ ہے اپنے کل بندوں کو دیکھ رہا ہے یہ نہ سمجھیں کہ جو چاہیں کریں کوئی پوچھنے والا نہیں