وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِيرًا
مگر لوگ اللہ کوچھوڑ کر ان کی عبادت کررہے ہیں جونہ ان کو نفع پہنچاسکے اور نہ نقصان اور کافرتواپنے رب کے مقابلے میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے
(55۔56) پر یہ کیونکر ممکن تھا کہ بندوں کو ایک بات کی حاجت ہو اور پروردگار تمہارا ہر کام پر قادر ہے پھر یہ کیوں کر ممکن تھا کہ بندوں کو ایک بات کی حاجت ہو اور اللہ اس کے پورا کرنے پر قادر ہے تو ان کی حاجت براری نہ کرے مگر ان مشرکوں کی حالت بھی بالکل اس مثال کے مشابہ ہے جو کہی گئی ہے ؎ کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ۔ جیسی جیسی اللہ کی مہربانیاں ہوتی ہیں ویسی ویسی انکی سرکشی حد سے بڑھتی جاتی ہے اللہ کے احسانوں اور نعمتوں کی بے قدری کرتے ہیں اور اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انکو نفع دیں نہ ضرر یہی دو وصف معبود میں ہونے ضروری ہیں کہ اس کی عبادت کرنے سے فائدہ ہو اور نہ کرنے سے ضرر سو جب ان کے معبودوں میں دونوں چیزیں نہیں تو پھر انکی عبادت کیسی اور وہ معبود کیسے اسی لئے تو ان کا یہ فعل عند اللہ قبیح ہے اور سچ پوچھو تو کافر اپنے پروردگار کی طرف گویا پیٹھ دئیے ہوئے ہیں یعنی اس کی تعظیم جیسی چاہئے نہیں کرتے بلکہ اس مالک الملک کو بھی دنیاوی بادشاہوں کی مثل سمجھ رکھا ہے کہ جس طرح دنیا کے بادشاہوں کے ایلچی اور نائب سلطنت کچھ نہ کچھ اختیارات رکھا کرتے ہیں جن اختیارات سے وہ کچھ نہ کچھ نفع یا ضرر رعایا کو پہونچا سکتے ہیں اسی طرح اللہ کے رسولوں اور نائبوں میں یہ بھی وصف ہوتا ہوگا حالانکہ یہ مثال غلط ہے اور نا مطابق کیونکہ ہم (اللہ) نے تجھ کو یا تجھے پہلے جس رسول کو بھیجا ہے محض خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا کر کے بھیجا ہے نہ یہ کہ انتظامی امور میں کچھ دخل دے کر دنیا کا نائب السلطنت بنایا ہے نائب تو بے شک ہیں صرف نیک کاموں پر خوشخبری اور برے کاموں پر ڈر سنانے میں